الوداعی تقریب، الوداعیہ،

الوداعی تاثرات وجذبات
پیش کردہ بموقع الوداعی تقریب 2016
منعقدہ: 28/اپریل 2016ء
منجانب: جملہ طلبہ سال اول (ایم-اے) 
بہ اعزاز: طلبہ ٔ سال دوم (ایم اے)
شعبہ اسلامک اسٹڈیز، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد (انڈیا)


       
    عزت مآب وائس چانسلر جناب ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب ، محترم صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز مانو، معزز اساتذہ کرام، باہر سے تشریف لائے ہوئے مہمانان گرامی قدر، رخصت ہونے والے ہمارے سینئر احباب، اور عزیز دوستو!
آج کی یہ پربہار اور باوقار محفل ہمارے ان احباب واعزاء کو الوداع کہنے کے لئے سجائی گئی ہے جو ہم سے جدا ہوا چاہتے ہیں، اور ہمیں داغ مفارقت دے کر اپنا رخت سفر باندھنے کو تیار بیٹھے ہیں، اس وقت مجھے طلبۂ سال اول کی جانب سے الوداعیہ پیش کرنے کا حکم دیا گیاہے، میں اپنے رخصت ہونے والے ساتھیوں کی خدمت میں چند قلبی تاثرات اور بیتے دنوں کے چند احساسات وجذبات کو دہرانا چاہوں گا، لیکن میرا حال یہ ہے حزن وملال اور مسرت وشادمانی کے ملے جذبات میرے ذہن ودماغ پر طاری ہیں ، اور کیفیت  میری یہ ہے کہ            ؎
گریہ ساماں میں، کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک
مسرت وشادمانی اس لئے کہ اب ہمارے یہ ساتھی ہم سے جدا ہوکر اپنے علم وفکر کے سفر کو مزید آگے بڑھائیں گے، اور کاروان فکروفن کے ہمدوش اپنے مستقبل کو بنانے اور سنوارنے کے لئے ہمیں الوداع کہہ دیں گے، اورجہاں جائیں گے اپنے اساتذہ، شعبہ اور یونیورسٹی کی نیک نامی کاسبب بنیں گے، اور حزن وملال اس وجہ سے کہ اللہ رب العزت نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ جب وہ کسی کے ساتھ کچھ ایام اور شب وروز بسر کر لیتا ہے تو اس کو اس سے انسیت اور قلبی تعلق ہوجاتاہے، اور جب جدائی اور مفارقت کی گھڑی آتی ہے تو دل غمزدہ ہوجاتا ہے اور آنکھیں اشکبار اور  دل کی ترجمان ہوجاتی ہیں، اور اس عالم رنگ وبو کا یہی دستور رہا ہے کہ کسی کو کسی کی دائمی صحبت نصیب نہیں، ہر ملنے والے ایک دن بچھڑتے ہیں، لوگ بچھڑجاتے ہیں، جسموں کے فاصلے بڑھ جاتے ہیں لیکن ان کی یادیں اور ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات اور  روزوشب قلب ودماغ کے پردہ پر ہمیشہ ہمیش کے لئے حسین یادوں کی دلفریب اور دیدہ زیب تصویریں نقش کرجاتے ہیں جو کبھی محو نہیں ہوتیں، اگرچہ ہمارا اور آپ کا ساتھ بہت طویل نہیں رہا لیکن اس کے باوجود اس مختصر سی رفاقت میں قلب ودماغ کے صفحہ پر بہت ساری خوشگوار یادیں اور باتیں نقش ہیں، آپ کے غائبانہ میں ہماری ملاقاتوں کی وہ بے تکلف محفلیں بہت یاد آئیں گی اور دل کو تڑپاجائیں گی      ؎
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
بہت اداس، بہت بے قرار گزرے گی
اس وقت میرے زبان وقلم میں اتنی طاقت نہیں کہ میرے دلی جذبات وکیفیات کی ترجمانی کرسکیں، لیکن حکم کی تعمیل میں اختصار کے ساتھ اپنے تاثرات وجذبات کی ترجمانی کرنے کی کوشش کروں گا۔
آج جب کہ ہماری جدائی کا وقت آپہنچا ہے ہمیں اس بات کے اعتراف میں کوئی جھجھک نہیں کہ آپ رخصت ہونے والے ہر ایک ساتھی کا ہم میں سے ہرایک کے ساتھ حددرجہ الفت ومحبت سے بھرپور اور خلوص آمیز رویہ رہا، اور آپ تمام  کی جانب سے شفقت ومروت اور معاونت کا معاملہ رہا، ہم آپ کے ان احسانات اور پرخلوص تعلقات کے لئے ہمیشہ شکرگزار اور ممنون رہیں گے، اور بارگاہ ایزدی میں ہمہ وقت دعا گو رہیں گے کہ آپ جہاں رہیں کامیابی وکامرانی ہرموڑ پر آپ کے قدم چومے اورجہاں جائیں آپ کے علم وفکر، بلند وبالااخلاق وصفات اور روشن کردار کی خوشبو سے غبار راہ  مشکبار اور عطر بیز ہوجائے، جدائی اور وداع کی اس گھڑی میں شاعر کی زبانی یہی کہتے ہیں     ؎
یاران تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے
اور
یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جوہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا
            رخصت ہونے والے ہمارے عزیز اور محترم برادران اور احباب !
            آپ نے یہاں اس عظیم  یونیورسٹی میں، اس شعبہ میں جو وقت گزارا، صبح وشام کی جن حسین اور یادگار ساعتوں میں یہاں آپ نے سانس لیا وہ یقیناً آپ کی زندگی کے حسین اور خوبصورت پل تھے، جو گزرگئے، لیکن آپ جہاں کہیں رہیں گے یہاں گزارے ہوئے روزوشب، یہاں کے بام ودر، یہاں کی فضائیں یہ سب آپ کی یادوں کا بیش قیمت سرمایہ ہوں گے، اور آپ نے اپنے اساتذہ کرام کی صحبتوں میں رہ کر جو علم حاصل کیا، فکر وفن کی جن وادیوں کو سر کیا اور یہاں سے آپ نے اخلاقیات، گرمی قلب وجگر، سوز وساز اور اعلی اقدار وروایات کا جو درس لیا وہ ہمیشہ آپ کی زندگی میں آپ کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگا، اس کی قدر وقیمت کو آپ ہمہ وقت محسوس کریں گے، اور اس احساس کے عملی نتیجہ کی شکل میں آپ کی شخصیت آپ کے خاندان، آپ کے ہم وطنوں، آپ کے رفقاء ، آپ کے سماج اور سوسائٹی اور پوری انسانیت کے لئے روشنی کا مینار اور دانشمندی کا بلندوبالا ستون  ہوگی          ؎
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو
کہ خورشید قیامت بھی ہوتیرے خوشہ چینوں میں
ہمارے جو احباب اسی یونیورسٹی میں رہ کراپنے اعلی تعلیم کے لئے مزیدقیام کریں گے، انھیں یہ سنہرا موقع ہنوز حاصل رہے گا جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو مزید اور جلا بخشیں گے، لیکن ہمارے جو احباب کسی دوسری درسگاہ کا رخ کریں گے یا پھر عملی میدان میں قدم رکھیں گے اور اپنے زندگی کے بامقصد سفر کو آگے بڑھانے میں مشغول ہوجائیں گے، ہمیں ان سے کہنا ہے کہ یہ مدت جو آپ نے یہاں گزاری اور جومنزلیں طے کیں وہ آپ کی آخری منزل نہیں، بلکہ آپ نے تو ابھی  صرف زاد راہ اور سامان سفر جمع کیاہے، اور آگے بڑھنے کے لئے توانائی اور ایندھن حاصل کیا ہے، آپ کی منزل ابھی بہت دور ہے، آپ کو ابھی بہت دور جانا ہے، ایک طویل سفر ہے جو آپ کا انتظار کررہا ہے، رہروان شوق وتمنا آپ کے منتظر ہیں       ؎
جانا ہے تجھے وقت کی رفتار سے آگے
آپ جبکہ یہاں سے رخصت ہوچکے ہوں گے، آپ کے سامنے ایک نئی دنیا ہوگی، چیلنچز اور مطالبات آپ کو آواز دے رہے ہوں گے، ملک وملت کی کشتی بھنور میں ہے، ایسے وقت میں آپ کی ذمہ داری ہوگی کہ آپ اس شعر کی عملی تصویر بن جائیں         ؎
اگر منظور ہوتجھکو خزاں نا آشنا رہنا
جہان رنگ وبو سے پہلے قطع آرزو کرلے
             میرے عزیز رفقاء!
            درحقیقت آپ کے جلو میں وہ گوہر نایاب ہے جس سے آپ اندھیروں میں اجالا اوربھٹکے ہوئے آہوؤں کو  آشنائے راز ازل کرسکتے ہیں، آپ کے پہلو میں وہ درنایاب ہے جس کی ضوفشانیوں سے آپ مہر ووفا، الفت ومروت  اور لطف وکرم کے دیپ جلا سکتے ہیں، بلاشبہ آپ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، آپ ہی پر نگاہ روزگار ٹکی ہے، اور سچی بات یہ ہے کہ         ؎
کیوں چمن میں بے صدا مثل رَم شبنم ہے تو؟
لب کشا ہوجا سرود بربط عالم ہے تو
ایم-اے (سال اول)کے تمام طلبہ پُرخلوص مبارکبادیاں، نیک تمنائیں اور خواہشات اور قیمتی جذبات آپ کی  نذر کرتے ہیں اور آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ عملی میدان میں جہاں خود کامیابی اور کامرانی کی منزلیں طے کریں گے وہیں ہمارے لیے بھی پیش رو ثابت ہوں گے۔
سلسلۂ کلام دراز ہوگیا، جی تو نہیں چاہتا کہ یہ سلسلہ ختم ہو لیکن وقت اس بات کی اجازت نہیں دیتا، لہٰذا میں اب آپ سے حکیم قوم علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے ان اشعار پر جدا ہوتا ہوں         ؎
صنوبر باغ میں آزادبھی ہے، پابہ گل بھی ہے
انھیں پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کرلے
نہیں یہ شان خود داری ، چمن سے توڑ کر تجھکو
کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیب گلو کرلے
اور
دیارعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح وشام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ ٔ وگل سے کلام پیداکر

نتیجہ فکر اور پیش کش: محمد خالد ( شعبہ اسلامک اسٹڈیز)، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد انڈیا
Prepared and Presented by: Mohd Khalid (M.A.) Dept of Islamic Studies, Maulana Azad National Urdu University, Hyderabad, Telnagan. 500032
الوداعیہ، الوداعیہ تقریب، تاثرات


Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

سلطنت عثمانیہ کے مذہبی احوال؛ ایک تاریخی جائزہ

دورُ القرآن الكريم في بقاء اللغة العربية وتطويرها