حارث محاسبی ؛ شخصیت اور خدمات

























بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تمہید:
       جب جب اسلام کی اصلاحی ودعوتی اور فکری تاریخ پر گفتگو کی جائے گی تصوف پر بات کئے بغیر گفتگو اپنے کمال کو نہیں پہنچے گی،  اور یہاں یہ حقیقت ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہاں تصوف سے مراد وہ تصوف نہیں جسے گردش زمانہ کے ساتھ ساتھ کم علم وکم فہم اورمقاصد شریعت سے بے پرواہ چندناعاقبت اندیشوں نے اپنی جاہلانہ اور بے بنیاد خیالات ومزعومات کا ملغوبہ بنادیا اور تصوف جو دراصل قرآن وحدیث کی بنیادوں پر استوار تزکیہ واحسان کی توسیعی وعصری تشریح تھی اس میں غیر قرآنی افکار وخیالات کی آمیزش سے اس کے صاف ستھرے تصور کو پراگندہ کردیا،  بلکہ یہ تصوف وہ ہے جو بنیادی طور پر تزکیہ واحسان ہی کا ایک اصطلاحی نام ہے، جس کے سہارے کتاب وسنت اور شریعت   کے رمز شناس علماء نے خلق خدا کی اصلاح وتزکیہ کا ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا،ان کے دلوں کی دنیا کو ذکر الہی اور فکر آخرت سے آباد کیا، اور عشق الہی سے ان کی حرارت ایمانی کو تب وتاب عطا کیا،ان کی تربیت گاہوں سے اسلامی تاریخ کے عظیم رجال کار تیار ہوئے اور اسلام کے مختلف محاذوں پر انہوں نے  بے لوث وبے نظیر خدمات انجام دیں، اور اسلام کی عملی وفکری سرحدوں کی حفاظت میں کلیدی رول ادا کیا، ہر دور میں اس تصوف کے بڑے بڑے نمائندے ہوئے، جنہوں نے اسے قرآن وسنت کی بنیادوں سے ہم آہنگ رکھنے کی پوری کوشش کی اور اس نبوی میراث کی حفاظت اور اس کی تبلیغ واشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، تصوف کے ان عظیم نمائندوں میں سے ایک اہم نام حارث محاسبی کا ہے، جو ان شخصیات میں سرفہرست ہیں جن کی تصنیف ’’الرعایۃ لحقوق اللہ‘‘ تصوف پر موجود باضابطہ تصانیف میں سے سب سے قدیم اور پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے، حارث محاسبی کی شخصیت  کو تصوف میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے، ان کے  شاگرد جنید بغدادی تصوف کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں، جنہوں نے آپ کے افکار ونظریات کی تبلیغ میں اہم رول ادا کیا، اور پھر بعد کی صدیوں میں حارث محاسبی کے افکار نظریات ہی پر تصوف نے کافی حد تک اپنا سفر جاری رکھا،اور پھر بعد کو چل کر چھٹی صدی میں امام غزالی نے جب اپنی شہرہ آفاق تصنیف احیاء علوم الدین لکھی تو اس کی بنیاد حارث محاسبی کی تصانیف ہی کو بنایا، حارث محاسبی کے ذاتی احوال وکوائف کی تفصیلات اکثر پردہ خفا میں ہیں جس کی وجہ آگے بیان کی جائے گی، لیکن میں نے اپنی بساط بھر کوشش سے جتنا ہوسکا ان کے ذاتی احوال کو جمع کیا ، اور بطور خاص ان کے افکار ونظریات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے، ساتھ ہی ان کی اہم تصانیف پر بھی ایک سرسری مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، حوالہ جات کے لئے مقالہ کے اخیرمیں درج حوالوں سے رجوع کیا جائے۔
حارث محاسبی کے عہد پر ایک نظر:
شیخ محاسبی کے عہد میں عالم اسلام میں دو باہم متصادم مکتبہ فکر موجود تھے، ایک اہل سنت جس کی سربراہی امام احمد بن حنبل فرمارہے تھے،اور دوسرے معتزلہ جس کی قیادت بصرہ ،کوفہ اور بغداد سے کی جارہی تھی، معتزلہ اور اہل سنت کے مابین یہ اختلاف ایک طبعی اختلاف تھا جس سے ادیان کی کوئی تاریخ خالی نہیں، اور وہ اختلاف تھا ظاہریت اور تعقل پسندی کا،یعنی یہ اختلاف ان دو طبقوں کے درمیان تھا جس میں سے ایک اس بات کا قائل تھا کہ دین ایک منصوص چیز ہے جس کی تشریح وتوضیح محض اسباب نزول ،لغت اور روایت کے ذریعہ ہی ممکن ہے، جبکہ دوسرے طبقہ کا خیال تھا کہ دین منصوص تو ہے البتہ اس کی تشریح میں عقل کا استعمال ناگزیر ہے۔
ابتدائی دور میں یہ خیال عام تھا کہ انسان یا تو ظاہر پرست ہوسکتا ہے یا عقلیت پرست، اس کے علاوہ کسی تیسرے پہلو کی گنجائش نہیں  تھی،اسی کشمکش کے دور میں حارث محاسبی نے آنکھیں کھولیں،اور اپنے طرز فکر اور طریقہ عمل سے ثابت کردکھایاکہ یہاں اس مسئلہ کا ایک متوازن حل موجود ہے اور ان دو راستوں کے علاوہ ایک تیسرا معتدل راستہ بھی موجود ہے،اور نص اور عقل دونوں سے استفادہ کی ایک نئی راہ بنائی ، اور شریعت کے فہم میں عقل کے استعمال اور اس سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے عقل کے بے محابہ اور آزادانہ استعمال کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور معتزلہ کے خلاف کھل کر تنقیدیں کیں اور ’’فہم القرآن‘‘ کے نام سے ان کے باطل افکار ونظریات کے رد میں ایک کتاب بھی تصنیف کی۔
محاسبی نے معتزلہ کے فکری رجحان میں سخت عدم توازن محسوس کیا اوراسے مزاج شریعت کے سراسر برخلاف پایا، اور دیکھا کہ وہ قرآن کے سلسلہ میں عقل کو اس حد تک اہمیت دیتے چلے جاتے ہیں کہ بالآخر نص قرآنی مکمل طور پر عقل انسانی کے تابع ہوکر رہ جاتی ہے،اور ان کی نظر میں اگر اس روش کو ایک لمحہ کے لئے بھی درست قرار دے دیا جائے یا اس سے ذرہ برابر بھی مصالحت کی جائے تو حقیقت میں پھر دین کے اندر حقیقی رہنما کتاب مقدس کے بجائے عقل قرار پائے گی۔
حارث محاسبی نے معتزلہ کے افراط وتفریط پر مبنی موقف کا بخوبی مشاہدہ کیا اور پھر ان کے خلاف معرکہ میں بلاخوف وخطر کود پڑے ،ان کی شخصیت میں ہمیں جہاں ایک طرف یہ بات نظر آتی ہے کہ انہوں نے حقیقی عبودیت ، انتہائی درجہ کے اخلاص  بے پناہ تقوی وورع کو اپنا ہتھیار بنایاتو دوسری جانب ان کی شخصیت میں یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ انہوں نے دین کا جامع اور تجزیاتی مطالعہ کیا،اس کے وسائل ومقاصد اور اس کی جزئیات وکلیات سب کابغور مطالعہ کیا،پھر اس کی روشنی میں انہوں نے اپنے مشن کو آگے بڑھایا، گویا کہ اگر ہم ان کے عملی واصلاحی مشن کے وسائل کو دولفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو وہ دو لفظ یہ ہوں گے؛ایک تقوی اور دوسرے علم۔(1)
محاسبی کی پیدائش عباسی دور خلافت کے ابتدائی زمانہ میں ہوئی،یہ دور اسلامی تاریخ کا نہایت اہم دور مانا جاتا ہے، علوم وفنون کی ترقی اور اسلامی تہذیب وثقافت کے فروغ کے  لحاظ سے یہ اسلامی تاریخ کا عہد زریں ہے،محاسبی کی جائے پیدائش بصرہ ایک فوجی چھاؤنی تھی،آٹھویں صدی عیسوی اور دوسری صدی ہجری میں ہندوستانیوں ،ملائی ،یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر علاقوں اور مذاہب وادیان سے وابستہ لوگوں کی آمد اور پھر ان کے باہمی اختلاط کے باعث بصرہ نے ایک عالمی شہر کی حیثیت اختیار کرلی تھی،جس کی وجہ سے یہاں مختلف قسم کے افکار ونظریات پھیل رہے تھے، یہ شہر ابتدائی زہد اور صوفیت کا مرکز بنا،چونکہ یہ حسن بصری ؒ اور ان کی زاہدانہ تحریک کا مرکز رہ چکا تھا۔
محاسبی کی علمی وعملی سرگرمیوں کا آغاز اس زمانہ میں ہوتا ہے جب عباسی خلیفہ مامون کی سرکردگی میں ترجمہ کی عظیم تحریک اپنے نقطہ عروج پر تھی، اس مقصد کے لئے بیت الحکمہ کا قیام ہوا تھا جہاں اکثر مترجمین شامی عیسائی تھے،جو شامی،یونانی اور عربی وغیرہ زبانوں کے ماہر ہواکرتے تھے،جنہوں نے ارسطواورجالینوس کے علوم وافکار کو عربی زبان میں منتقل کیا،اس دور کے مسلم مصنفین اور اہل علم پر اس تحریک کا بڑا اثر ہوا،حارث محاسبی جب بغداد آگئے تو آپ کی شخصیت زیادہ نمایاں ہوکر منظر عام پر آئی،بغداد اس وقت اسلامی تہذیب وثقافت کا گہوارہ اور عالمی مرکز بن گیا تھا،حارث محاسبی کو بغداد کے مدرسۂ تصوف کا بانی اور اس کانمائندہ سمجھاجاتا ہے۔(2)
ذاتی احوال وکوائف: 
        ابونعیم اصفہانی (متوفی 430ھ) جن کا زمانہ حارث محاسبی سے قریب کا زمانہ ہے،انہوں نے تصوف کے موضوع پر اپنی شہرۂ آفاق تصنیف میں شیخ محاسبیؒ کا تذکرہ 37؍صفحات میں کیا ہے،لیکن ان کے ذاتی حالات محض 5؍سطروں میں حددرجہ اجمال کے ساتھ بیان کرکے بقیہ صفحات میں آپ کے اقوال ،زاہدانہ نصائح اور مواعظ ذکر کئے ہیں،وہ لکھتے ہیں:
          ’’ابوعبداللہ حارث بن اسد المحاسبی،حق کے رنگوں کا مشاہدہ اور مراقبہ کرنے والےتھے،حضور اکرم ﷺ کے آثار کے لئے جدوجہد کرنے والے اور اس کی مصاحبت اختیار کرنے والے تھے،ان کی تصانیف مدون اور تحریر شدہ ہیں،ان کے اقوال مرتب اور مشہور ہیں،ان کے احوال تصحیح شدہ اور مقبول ہیں،وہ علم الاصول میں راسخ اور برتر تھے،اور لایعنی مباحث میں مشغول ہونے سے بیزار اور دور تھے،گمراہ مخالفین کےساتھ سختی سے پیش آتے اور مریدین اور رجوع ہونے والوں کے حق میں نرم دل اور ناصح تھے ‘‘۔(3)
          صوفی،متکلم،فقیہ،محدث’’ابو عبداللہ حارث بن اسد المحاسبی العنزی‘‘راجح قول کے مطابق 170ھ بمطابق 786ء میں بصرہ میں پیدا ہوئے،پھر بعد میں بغداد آگئے تھے،سبکی نے طبقات الشافعیہ میں ذکر کیا ہے کہ ان کی امام شافعی سے ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے امام شافعی سے علمی استفادہ بھی کیا تھا،اس کے علاوہ حارث محاسبی کے دیگر اساتذہ وشیوخ کی تفصیل ہمیں نہیں ملتی،البتہ حدیث میں ان کےحسین بن ہارون الفقیہ اور  محدث یزید بن ہارون سے استفادہ کا ذکر ملتا ہے اور انہوں نے ان سے روایت بھی کی ہے،اور حارث محاسبی سے روایت کرنے والوں میں ابوالعباس بن مسروق الطوسی،احمد بن حسن بن عبدالجبار صوفی،اسماعیل بن اسحاق السراج اور احمد بن قاسم بن نصر الفرائضی وغیرہ کا نام آتا ہے،محاسبی کی تحریروں سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ آپ پر حسن بصریؒ کی فکر کا بڑا گہرا اثر تھا،محاسبی پہلے سنی صوفی ہیں جن کی تصانیف میں ہمیں ایک مکمل کلامی رنگ وآہنگ نظر آتا ہے،بلاشبہ محاسبی اسلامی تصوف کی عظیم اور نمائندہ شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت ہیں۔(4)
          تقوی ،علم ،معاملات وحالات میں عدیم النظیر تھے،دنیا سے انتہائی بے رغبت ،زہد وموعظت میں بیان وخطاب میں ماہر تھے،اپنے نفس کا کثرت سے محاسبہ کرنے کی وجہ سے ’’محاسبی‘‘کے لقب سے معروف ہوئے،آپؒ اللہ تعالی کے احکام کو بجا لانے والے ،عبادت گزار،صوفی باصفا،فقہ واصول کے ماہر،علم کلام کے شناور،واعظ بے بدل،حدیث کے راوی،زبان کی فصاحت ،بیان کی عمدگی ،قلب کی صفائی سے مزین تھے،جب کسی واقعہ کو ترغیبا یا ترہیبا بیان کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ سامعین آنکھوں سے اس کا مشاہدہ اور اعضاء سے اس کو محسوس کررہے ہیں،بات ختم کرنے سے پہلے انسان کو قائل کرکے اس کے دل کو اطمینان سے معمور کردیتے اور ان کی بات سرتاسر بھلائی اور نصیحت ہی ہوتی۔
ان کے والد کو بعض لوگوں نے مجوسی لکھا ہے، بعض نے قدری یا معتزلی ،اسی لئے محاسبی ؒ اپنے والد کے ترکہ سے دستبردار ہوگئے،کیونکہ حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق دومختلف المذہب افراد کا ایک دوسرے کے ترکے میں وارث بننا درست نہیں،اسی وجہ سے محاسبی نے تمام عمر مفلسی میں بسر کرنا گوارہ کیا مگر والد کی میراث میں سے ذرہ برابر بھی قبول نہیں کیا۔تمام دینی علوم مثلا تفسیر،حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی،ایک طویل عرصہ تک بغداد میں ان علوم کا درس دیا جہاں ان کا شمار مشہور اور مستند علماء میں ہوتا تھا،چونکہ وہ علم کلام میں بھی بہت بلند مرتبہ رکھتے تھے اور اپنے افکار ونظریات کو اس علم کی روشنی میں ثابت کرتے تھے اس لئے بعض معاصر علماء اور پورا ایک علمی طبقہ ان کے خلاف تھا، بطور خاص امام احمد بن حنبل ؒ سے آپ کی چپقلش اور اختلاف کافی مشہور ہے۔(5)
          اسلام میں زہد اور تصوف کی تحریکوں کے درمیان زمانی حدبندیوں کی بالکل واضح اور دوٹوک تعیین ذرا مشکل کام ہے،چونکہ فکری ارتقا طبعی طور پر محدود ومتعین زمانی تحدید کے تابع نہیں ہوتا،تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری صدی ہجری کے اواخر سے ہی زہاد تصوف کی طرف مائل ہونے لگے تھے،نیز بعض تذکرہ نگاروں نے انہیں صوفیا میں شمار کیاہے،لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ تیسری صدی کے اوائل میں زہد کی تحریک میں ایک بڑا انقلاب رونما ہوتا ہے،پھر اس دور کے زہاد صوفیا کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے تھے،رسالہ قشیریہ اور مقدمہ ابن خلدون کے مطابق تصوف اور صوفی کالفظ دوسری صدی ہجری کے اختتام سے قبل ہی وجود میں آچکا تھالیکن اس کو مقبولیت اور عام شہرت تیسری صدی ہجری میں حاصل ہوئی۔
          اس دور میں صوفیا کے کلام میں ایسے معانی کا اظہار شروع ہوگیا تھا جو اس سے قبل معروف نہیں تھے،انہوں نے اخلاق،نفس اورسلوک سے بحث کی اور سالک کے لئے اللہ سے قربت کے مختلف ذرائع اور وسائل کو مخصوص اصطلاحات میں بیان کرنا شروع کردیا،مقامات ،احوال،معرفت اور اس کے مناہج،توحید،فناوبقا،اتحاد اور حلول جیسے مباحث ان کے یہاں ملتے ہیں،ان تمام کے لئے انہوں نے نظری قواعد وضوابط وضع کئے،ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنی اس تحریک کے لئے مخصوص عملی مشاغل اور اعمال کی بھی تبلیغ واشاعت کی،اور اس طرح ایک خاص فن اور ایک مخصوص قسم کی زبان وجود میں آگئی جس کی ایجاد صرف اور صرف صوفیا ہی کی رہین منت ہے، اسی زمانہ میں تصوف کی تدوین کاباضابطہ آغاز ہوتا ہے،تصوف کے فن پر اولین مصنفین میں حارث محاسبی (متوفی 243ھ)جن کی تصنیف ’’الرعایہ لحقوق اللہ‘‘ تصوف پر لکھی جانے والی سب سے پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے،ابوسعید خراز(متوفی 277ھ)،حکیم ترمذی(متوفی 285ھ) اور جنید بغدادی(متوفی 297ھ)ہیں،یہ تمام کے تمام تیسری صدی ہجری کے صوفیا ہیں۔(6)
           امام محاسبی کا دور دوسری صدی ہجری کے اواخر اور تیسری صدی ہجری کے اوائل کا زمانہ ہے،جب عالم اسلام پر مختلف قسم کے گمراہ کن نظریات اور افکار کی یلغار تھی،جن سے بڑے بڑے اصحاب فکر ونظر بھی متاثر ہورہے تھے،ان حالات میں مختلف اہل دل اور اہل علم بزرگوں نے اس فتنہ سے عالم اسلام اور امت مسلمہ کو محفوظ رکھنے اور اس سے انہیں نجات دلانے کی فکر کی، اور اسلامی معاشرہ کو دوبارہ اس کی اصل پر واپس لانے کی پوری کوشش کی، بہت سے لوگوں سے اس سلسلہ میں غلطی ہوئی تو بہت سوں کو فضل خداوندی سے اپنی کوششوں میں کامیابی ملی،شیخ حارث محاسبی نے معاشرہ کی اصلاح کے لئے نہایت موزوں منہج اختیار کیا،اور معاشرہ کو اس کے اس اصل مقام پر پہنچانے کی نہایت کامیاب کوشش کی جس سے وہ بتدریج دور ہوتا جارہا تھااور فکری اور عملی ہر سطح پر اس کا رشتہ اس کے اصل سے کمزور ہوتا جارہا تھا۔
کتب سوانح میں محاسبی کا تذکرہ:
      تذکرہ نگاروں اور اصحاب سوانح نے اپنی اپنی تصانیف میں حارث محاسبی کا تذکرہ لکھا ہے، کسی نے مختصر کسی نے تفصیلی، جن قابل ذکر تذکرہ نگاروں نے اپنی تصانیف میں ان کو جگہ دی ہے وہ درج ذیل ہیں:
ابن الجوزی:صفۃ الصفوۃ 1؍53-53،سیراعلام النبلاء:8؍171،ابن شاکر الکتبی:عیون التواریخ6؍154،الموصلی:مناقب الابرار2؍43-44،المناوی:طبقات الاولیاء2؍207-209،ابن الملقن:طبقات الاولیاء1؍16،ابن الندیم:الفہرست1؍184،خطیب بغدادی:تاریخ بغداد8؍211-216،ابن خلکان:وفیات الاعیان1؍157-158،السمعانی:الانساب2؍509،ابن حجر:تہذیب التہذیب2؍134-136،السبکی:طبقات الشافعیہ 2؍37-42،ذہبی: المیزان1؍199-200،ابن العماد:شذرات الذہب2؍103،حاجی خلیفہ:کشف الظنون908،1420،طاش کبری:مفتاح السعادہ2؍172-173،طبقات الصوفیہ للسلمی،ابونعیم الاصفہانی:حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء10؍73۔
حارث محاسبی کی مخالفت اور اس کا اثر:
          حارث محاسبی کے دور میں بھی اور آپ کی زندگی کے بعد بھی آپ کی چوطرفہ مخالفت ہوئی،فقہاء اور محدثین آپ کے خلاف ہوگئے،اس مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں حدیث کے علاوہ کسی دوسرے علم بطور خاص علم کلام جیسے کسی فن سے وابستگی معیوب تصور کی جاتی تھی،علم کلام اور کلامی انداز گفتگو یا انداز تحریر کو اسلام مخالف یا معتزلہ موافق خیال کرکے اس سے وابستہ افراد کی مذمت کی جاتی تھی اور ایک طرح سے اس طریقہ عمل کو بدعت سمجھا جاتا تھا، لیکن حارث محاسبی اپنے مطالعہ کے نتیجہ میں اور حالات کے گہرے تجزیہ کی روشنی میں سمجھتے تھے کہ معتزلہ یا اس طرح کے دیگر گمراہ طبقات کے فتنہ کو روکنے کے لئے انہی کے ہتھیار سے ان پر حملہ کیا جائے، یہ اس زمانہ کا بالکل وہی کام تھا جس کو بعد کے دور میں امام غزالی نے انجام دیا۔
          حارث محاسبی اپنے دروس میں عام روایتی نہج سے ہٹ کر ایک نئے نہج پر عمل پیرا تھے، آپ اخلاص ،ورع،زہد،خشوع الی اللہ، خوف الہی، جلال وعظمت خداوندی،عشق الہی  اور تقرب الی اللہ جیسے موضوعات پر گفتگو کیا کرتے،آپ نہایت فصیح اللسان،شیریں زبان  اور قادرالکلام معلم اور واعظ تھے،دل آپ کی طرف مائل ہوتے تھے، آپ کی گفتگو سن کر لوگوں میں اللہ کے فضل کا احساس پیدا ہوتا اور لوگ استقامت پر آپ سے بیعت کرتے۔
          بغداد کے چپہ چپہ میں محاسبی کا چرچہ عام تھا،پھر آپ کی شہرت عالم اسلام کے دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گئی،آپ کی شہرت جوں جوں بڑھتی گئی اسی قدر آپ کے مخالفین اور معاندین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا،امام احمد بن حنبل اور دیگر اہل ظواہر علماء کی مخالفت کے باعث آپ کو عزلت نشینی اور بسا اوقات جلا وطنی کی بھی زندگی گزارنی پڑی،لیکن اس کے باوجود آپ کے پایہ ثبات میں لغزش نہیں آئی،آپ اپنے مشن میں پوری یکسوئی اور تندہی کے ساتھ مصروف رہے ،اور یہ اختلاف  صرف اورصرف کوئی اس دور کا اختلا ف نہیں تھا بلکہ ان دو طبقوں یعنی اہل ظواہر اور نص اور عقل دونوں کو جمع کرنے والوں کا اختلاف آج تک مسلسل باقی چلا آرہا ہے۔(7)
          ایک طرف جہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حارث محاسبی کے حالات زندگی اکثر پردہ خفا میں ہیں، اس کی متعدد وجوہات میں سے ایک وجہ آپ کے زمانہ میں آپ کی حددرجہ مخالفت بھی ہے،جس کے باعث انہیں گوشہ نشینی اختیارکرلینی پڑی تھی،اور وہ مستقل تنہائی میں ذکر الہی اور محاسبہ نفس میں منہمک رہتے ،اسی وجہ سے آپ کے معتقدین نے آپ کو محاسبی کے لقب سے یاد کرنا شروع کردیا،اور اس انتہائی مخالفت کا اثر کچھ اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے جنازہ میں صرف چار لوگ شریک ہوتے ہیں،دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ محاسبی کے علوم وافکار آج بھی زندہ ہیں، اور آپ کی فکر کا تسلسل کسی دور میں بھی منقطع نہیں ہوپایا،آپ کے شاگرد خاص اور تصوف کی عظیم شخصیت جنید بغدادی کے ذریعہ آپ کے فکر اور علوم کی ترویج واشاعت ہوئی ، اور اس طرح تصوف میں آگے چل کر جتنے افکار ونظریات اور خیالات اور معانی سامنے آئے ان سب کی بنیاد حارث محاسبی کے فکر پر ہے۔محاسبی کی تعلیمات کا سب سے زیادہ اثر امام غزالی پر مرتب ہوا،کیونکہ انہوں نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں محاسبی ہی کے عقائد وافکار کو اپنی تعلیمات کا سنگ بنیاد بنایا ہے۔
حارث محاسبی کی تصانیف:
      حارث محاسبی کثیر التصانیف بزرگ ہیں، سبکی نے آپ کی تصانیف کی تعداد 200؍لکھی ہے،ان میں سے اکثر زہد،تصوف وسلوک میں ہیں،اور بہت سی عقائد میں معتزلہ ،قدریہ اور روافض کے رد میں ہیں،اور کچھ فقہ واحکام میں ہیں،فواد سزکین کی تحقیق کے مطابق ان میں سے 31؍نسخوں کا پتہ چلا ہے،جن میں سے متعدد زیور طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں،جبکہ بعض ابھی بھی مخطوطے کی شکل میں دنیاکی متعدد لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔
موجودہ مطبوعہ وغیر مطبوعہ تصانیف  میں سے چندیہ ہیں:
1-کتاب الرعایہ لحقوق اللہ والقیام بہا: انقرہ ،مصر اور دیگر علاقوں کی لائبریریوں میں اس کے مخطوطے محفوظ تھے،جامع ازہر کی لائبریری کے مخطوطے کو سب سے پہلے مستشرقہ مارگریٹ سمتھ نے 1940ء میں شائع کیا،اس کے بعد عبدالحلیم محمود نے اس کے بعد عبدالقادراحمدعطا نے قاہرہ سے اس کو اپنی اپنی تحقیق کے ساتھ شائع کیا۔یہ کتاب تصوف کے موضوع پر سب سے اولین تصنیف سمجھی جاتی ہے۔اس کا ترکی ترجمہ ہوچکا ہے۔
اس کتاب کی ایک تلخیص مقاصد الرعایۃ کے نام سے ہے،جو عبدالعزیز بن عبدالسلام نے کی ہے،اس کا ایک نسخہ انقرہ کی لائبریری میں اور ایک نسخہ برلین(جرمنی) کی لائبریری میں محفوظ ہے، ایک نسخہ فواد سزکین کے ذاتی کتب خانہ میں بھی موجود ہے۔یہ کتاب خالد الطباع کی تحقیق کے ساتھ دارالفکر بیروت سے شائع ہوچکی ہے۔
2-الوصایا:ایک مخطوطہ برٹش میوزیم لائبریری میں ہے،ایک نسخہ برلین میں ہے،ایک نسخہ پیرس میں ہے اور ایک نسخہ فاس میں ہے،یہ سب مخطوطے ہیں،یہ کتاب عبدالقادر احمد عطا کی تحقیق وتعلیق کے ساتھ دارالکتب العلمیہ بیروت سے 1986ء میں شائع ہوچکی ہے۔
3-کتاب التوہم:اس کو سب سے پہلے مشہور مستشرق آربرے نے 1937ء میں قاہرہ سے شائع کرایا،اس کا مقدمہ مشہور مصری عالم احمد امین نے لکھا ۔
4-کتاب المکاسب والورع والشبہات:برلین میں ایک مخطوطہ موجودہے،سعد عبدالکریم الفقی کی تصحیح وتحقیق کے ساتھ دارابن خلدون اسکندریہ سے شائع ہوچکی ہے۔
5-آداب النفوس:عبدالقادر احمد عطا کی تحقیق کے ساتھ موسسۃ الکتب الثقافیہ بیروت سے شائع ہوچکی ہے۔
6-بدء من أناب الی اللہ:مستشرق ریٹر نے 1935ء میں اس کو پہلی بار شائع کرایا،1991ء میں مجدی فتحی سید کی تحقیق کے ساتھ دارالسلام قاہرہ سے شائع ہوچکی ہے۔
7-کتاب العلم:محمد العابد المزالی کی تحقیق کے ساتھ 1975ء میں المرکز الوطنی للنشر والتوزیع الجزائر سے شائع ہوئی۔
8-شرح المعرفہ وبذل النصیحۃ: اس کا مخطوطہ برلین،برٹش لائبریری میوزیم لندن،انقرہ،ازہراور تیونس کی لائبریری میں موجود ہے،1993ءمیں ابومریم مجدی فتحی سید کی تحقیق وتعلیق کے ساتھ دارالصحابہ للتراث طنطا سے شائع ہوچکی ہے۔
9-معاتبۃ النفوس:اس کا مخطوطہ برلین میں موجود ہے،محمد عبدالقادر احمد عطا کی تحقیق کے ساتھ دارالاعتصام قاہرہ سے شائع ہوچکی ہے۔
10-رسالۃ المسترشدین:اس کا مخطوطہ اسکندریہ کتب خانہ ،نیز انقرہ لائبریری،دارالکتب قاہرہ میں موجود ہے، 1964ء میں عبدالفتاح ابوغدہ نے اس کو اپنی تحقیق ،تخریج اور تعلیق کے ساتھ حلب سے شائع کیا۔اس کااردو ترجمہ قاضی اسامہ عبدالحق نے کیا ہے جو زمزم پبلشرز سے شائع ہوا ہے۔
11-العقل و فہم القرآن:معتزلہ کے رد میں لکھی گئی،یہ کتاب ڈاکٹر حسین قوتلی کی تحقیق کے ساتھ 1971ءمیں دارالفکر سے شائع ہوئی۔اس کا ترکی ترجمہ واصل اردوغان نے کیا ہے جو اسطنبول سے 2006ء میں شائع ہوا ہے۔(8)
الرعایۃ لحقوق اللہ کے مضامین کا تعارف:
          حارث محاسبی کی تمام تصانیف میں کتاب ’’الرعایہ لحقوق اللہ والقیام بہا‘‘ ایک شاہکار تصنیف ہے،ضخامت کے اعتبار سے بھی یہ کتاب ان کی تمام کتابوں سے زیادہ ضخیم اور ان کی تعلیمات تصوف پر پوری طرح حاوی ہے،اس کتاب میں انہوں نے تلقینی اسلوب اختیار کیا ہے،یعنی ایک مرید ان سے سوالات کرتا جاتا ہے اور وہ ان کے جوابات دیتے جاتے ہیں،اس کتاب میں باسٹھ ابواب ہیں اور بعض ابواب میں فصول بھی ہیں،شروع میں 3؍صفحے کا دیپاچہ ہے جس میں مسلمانوں کو بالعموم اور طالبان حق کو بالخصوص احکام الہی کی طرف دل وجان سے متوجہ ہونے کی تلقین کی ہے،کتاب میں جابجا آیات قرآنیہ اور احادیث مبارکہ سے استدلال کیا ہے۔
          اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ تصوف پر جس قدر کتابیں مطبوعہ صورت میں دستیاب ہوسکی ہیں یہ ان میں سب میں سب سے قدیم ترین ہے،اس کی تصنیف کا زمانہ 220ھ اور 225ھ کے قریب کا زمانہ ہے،اس کتاب کے مطالعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ابتدائی زمانہ میں اسلامی تصوف  قرآن اور حدیث پر مبنی تھا اور اس مقصد تزکیہ نفس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا،نیز یہ کہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری تک اسلامی تصوف میں عجمی یا ایرانی افکار کی آمیزش نہیں ہوئی تھی،کتاب میں باسٹھ ابواب ہیں لیکن کوئی باب ایسانہیں ہے جس میں جگہ جگہ قرآن اور حدیث سے استشہاد اور استدلال نہ کیا گیا ہو،قرآن وحدیث کے علاوہ مصنف نے اکثر اکابر صحابہ کے ارشادات ومرویات سے بھی استفادہ  کیا ہے،ابواب 1تا5 میں محاسبہ نفس کی ضرورت واہمیت کو واضح کیا گیا ہے،چھٹے باب میں توبہ کرنے والوں کے طبقات اور توبہ کے طریقے بیان کئے گئے ہیں،ساتویں باب میں موت کی تیاری سے متعلق نصیحتیں ہیں،آٹھویں باب میں ریا کی مختلف صورتوں کی نشاندہی کی گئی ہے،اس کے بعد کے ابواب میں اخلاص کی افادیت ،اہمیت وضرورت کو واضح کیا گیا ہے،پھر شیطان سے حذر واجتناب  کے طریقے بیان کئےگئے ہیں،پھر نیت کی تشریح اور تصحیح نیت کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے،اس کے بعد ندامت کا بیان ہے،اس کے بعد دوسروں کے ساتھ پیش آنے کے آداب بیان کئے گئے ہیں،پھر کبر کی مذمت ہے،اور تواضع  پر زور دیا گیا ہے،سالک کے لئے نظام الاوقات مرتب کیا ہے،جس میں اس کے لئے ذکر ،دیگر معمولات اور اخلاقیات سے متعلق نصائح ہیں۔(9)





حواشی وحوالہ جات
1-محمود عبدالحلیم،استاذ السائرین حارث بن اسد المحاسبی دارلمعارف قاہرہ:3-4
2-الجعفری،عبدالمنعم،اعلام ومشاہیر الصوفیہ،الدارالثقافیہ للنشرقاہرہ(2003):119
3-الاصفہانی،ابونعیم احمد بن عبداللہ ،حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء،مکتبۃ الخانجی قاہرہ(1996):10؍73
4-کحالہ،عمررضا،معجم المولفین،موسسۃ الرسالہ:517-518
5-چشتی،پروفیسر یوسف سلیم،تاریخ تصوف،علماء اکیڈمی لاہور(1976):145-146
6-غنیمی،دکتور ابوالوفاء،مدخل الی التصوف الاسلامی،دارالثقافہ للنشر والتوزیع قاہرہ:95-96
7-محمود عبدالحلیم،استاذ السائرین حارث بن اسد المحاسبی دارلمعارف قاہرہ:5-6
8-سزکین،فؤاد،تاریخ التراث العربی،إدارۃ الثقافہ والنشر ،ریاض(1991):115-119
9- چشتی،پروفیسر یوسف سلیم،تاریخ تصوف،علماء اکیڈمی لاہور(1976):153-154






مراجع ومصادر
1-محمود عبدالحلیم،استاذ السائرین حارث بن اسد المحاسبی دارلمعارف قاہرہ
2-الجعفری،عبدالمنعم،اعلام ومشاہیر الصوفیہ،الدارالثقافیہ للنشرقاہرہ(2003)
3-الاصفہانی،ابونعیم احمد بن عبداللہ ،حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء،مکتبۃ الخانجی قاہرہ(1996)
4-کحالہ،عمررضا،معجم المولفین،موسسۃ الرسالہ
5-چشتی،پروفیسر یوسف سلیم،تاریخ تصوف،علماء اکیڈمی لاہور
6-غنیمی،دکتور ابوالوفاء،مدخل الی التصوف الاسلامی،دارالثقافہ للنشر والتوزیع قاہرہ
7-سزکین،فؤاد،تاریخ التراث العربی،إدارۃ الثقافہ والنشر ،ریاض(1991)



Comments

  1. ماشاءاللہ بہت عمدہ اور معلومات افزا مضمون، خدا کرے زور قلم اور زیادہ

    ReplyDelete
  2. جزاک اللہ عامر صاحب اس حوصلہ افزائی کا

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

الوداعی تقریب، الوداعیہ،

سلطنت عثمانیہ کے مذہبی احوال؛ ایک تاریخی جائزہ

دورُ القرآن الكريم في بقاء اللغة العربية وتطويرها