سلطنت عثمانیہ کے مذہبی احوال؛ ایک تاریخی جائزہ

سلطنت عثمانیہ کے مذہبی احوال؛ ایک تاریخی جائزہ



محمد خالد ندوی




بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہید:
          اسلامی تاریخ کی چندعظیم اورطویل ترین عرصہ تک قائم رہنے والی سلطنتوں میں سرفہرست سلطنت عثمانیہ ہے، تقریبا ساڑھے چھ سوسال تک یہ حکومت قائم رہی، اس پوری مدت میں کل 37/حکمراں ہوئے ، ابتدا میں اس حکومت کارقبہ بہت محدود تھا لیکن فتوحات کی کثرت اور بے مثال انتظامی وسیاسی صلاحیتوں کی بنا پر عثمانی سلاطین نے اس حکومت کی سرحدوں کوایک طرف ایشیاسے لیکر یورپ اوردوسری طرف افریقہ تک وسیع کردیاتھا، یہ حکومت اپنی تہذیبی ،ثقافتی ،علمی وادبی اور سیاسی ترقیات کے لحاظ سے دنیا کی چندعظیم حکومتوں میں شمار کئے جانے کے لائق ہے، بلاشبہ اس حکومت نے پوری دنیا کے سیاسی ،علمی اور تہذیبی منظرنامہ پر اپنے انمٹ نقوش مرتب کئے، اور اس کی سنہری تاریخ نے نہ صرف یہ کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو متاثر کیابلکہ غیرمسلم اقوام وملل نے بھی اس سے اپنے گہرے تاثر کااظہار کیا،بطور خاص یورپین مفکرین اور مصنفین نے اس  مسلم سلطنت کی تاریخ پر بہت کچھ لکھا اوربہت خوب  لکھا،اسلام کی قریبی تاریخ میں یہ سلطنت مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ تقویت اور خوداعتمادی کاباعث تھی،  پوری دنیا کے مسلمان چاہے وہ کسی نسل اور قومیت کے ہوں اس سلطنت کے سقوط کے بعد سبھی متاثر ہوئے اور ان کی اس مرکزی اور متحدہ جمعیت کوسخت نقصان پہنچا جو ساڑھے چھ سوسال سے مسلسل دنیا کے نقشہ پر ایک عظیم طاقت کے طور پرموجود رہی ،بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ حکومت اپنے عہد کی سپرپاور حکومت تھی،اس کی عظمتوں کے جوظاہری اور مرئی  نقوش ترکی اور اس سے متصل علاقوں میں آج جوموجود ہیں وہ تو ہیں ہی لیکن اس کی عظمت ورفعت کی ایک بڑی علامت یہ بھی ہے کہ آج بھی جبکہ اس کے سقوط پرسوسال گزرنے والے ہیں مسلمانان عالم اس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اورعالم اسلام کی ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح اور مداوا کے لئے اسی کی مسیحائی کے دوبارہ منتظر ہیں۔
          تاریخ کے مطالعہ سے اقوام اپنی سیاسی ،سماجی اور معاشرتی مشکلات سے نجات پانے کاراستہ تلاش کرتی ہیں، مسلمان جن کی گذشتہ تاریخ اتنی روشن اور تابناک ہے کہ ہردور اور ہر قسم کے حالات میں اس سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے تاریخ اسلام کی عظیم حکومتوں کامطالعہ اس طرح کیا جائے        کہ اس کے ہرہرپہلو پر علحدہ اور مستقل طور پر غوروخوض کیا جائے اور تمام پہلوؤں  کےمطالعہ کے ذریعہ بصیرت افروزنتائج اور نکات تک پہنچنے کی کوشش کی جائے، ہر حکومت اپنی سیاسی ،تمدنی ، ثقافتی ،علمی وادبی ،اور مذہبی تاریخ رکھتی ہے، اور ان میں سے کسی بھی تاریخ کومطالعہ کے دوران نظر انداز کرنا تاریخ کاناقص مطالعہ قرار پائے گااور درست نتائج تودور بلکہ  عین ممکن ہے کہ اس کے برعکس غلط اور نقصان دہ نتائج کاسامنا کرنا پڑے،چونکہ سلطنت عثمانیہ بھی اپنی ایک عظیم الشان  جامع تاریخ اور لازوال کارناموں کی ایک طویل فہرست اپنے جلو میں رکھتی ہے لہذا اس مختصر مقالہ میں ہم صرف اس کے مذہبی حالات کاجائزہ لینے کی کوشش کریں گے، موضوع کے انتخاب کی وجہ یہ ہے عثمانی سلطنت دین اور مذہب کے لحاظ سے تاریخ اسلام میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے اور عثمانی سلاطین کی دین سے قربت اور وابستگی مشہور خاص وعام ہے۔   
دین کوہرچیزپرمقدم رکھنا
دولت عثمانیہ کے جتنے فرمانرواہوئے ہیں ان تمام کی پرورش خالص اسلامی طریقہ پر ہوئی، ان کی تربیت میں اس بات کاخاص خیال رکھا گیا کہ ان کے عقائد ونظریات میں کوئی کجی نہ ہوئی ، اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ یہ لوگ سخت ترین دینی لڑائیوں میں گھس گئے،عثمانی جب اعلان جنگ کرتے اور لوگوں کوجہاد فی سبیل اللہ کی دعوت دیتے تو ان کی زبان پرہمیشہ یہ خوبصورت الفاظ ہوتے ’’فتوحات کو چلو ،غازی یاشہید‘‘۔ جب سے دولت عثمانیہ کی بنیاد پڑی تھی اس کے فرمانروا کوغازی کالقب دیاگیا یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، یہ لقب دوسرے تمام القابات پرسبقت لے گیا،اور بڑے بڑے سلاطین کے ہاں بڑی قدر ومنزلت حاصل کرگیا، دولت عثمانیہ کا سب سے بڑا مقصود اسلام کا دفاع اور تمام دنیا میں اسلامی پرچم کی سربلندی تھی،اسی لئے پوری سلطنت اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی تھی ،کیا عوام اورکیا سلطان ،کیاارکان دولت اور کیالشکر،کیاثقافت اور کیاقانون،کیاظاہری اطوار اور کیا اندرونی کیفیات ہرلحاظ اور ہرپہلو سے خالص اسلامی رنگ چھایا ہوادکھائی دیتا تھا، اور یہ چند برسوں کی بات نہیں ،شروع سے لیکر سات صدیوں تک دولت عثمانیہ اسلامی رنگ میں رنگی رہی۔
          عثمانی سلاطین نے ہرچیز پردین کومقدم رکھا،اس طرف ہرسلطان کی توجہ مبذول رہی اور ہرسلطان کی حتی المقدور یہ کوشش رہی کہ مملکت کے کونے کونے میں دینی امور کی پوری طرح پاسداری ہو،انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی پہچان اسلام ہے،ان کی وراثت اور تہذیب وتمدن اسلام ہے، ان کے نزدیک جہاں جہاں مسلمان آباد تھےان کاوطن تھا، پوری ملت اسلامیہ ان کی ملت اور دین اسلام ان کی زندگی کامنہج تھا،اسی لئے تمام مدارس ، جامعات  اور تعلیمی اداروں میں مروج نصاب کاہدف ایک ہی تھا کہ بچوں کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ماضی اور مستقبل اسلام سے وابستہ ہے،ہمیں صرف اسلام کی سربلندی کے لئے جینااور مرنا ہے،چھوٹے چھوٹے  مدارس میں معصوم بچوں کی تعلیم وتربیت کے دوران ان کے دلوں میں یہ بات راسخ کردی جاتی تھی کہ ہم مسلمان ہیں اور بس بچوں کی پیدائش کے رجسٹروں میں تمام مسلمانوں کااندراج کسی اور قومیت کے حوالہ سے نہیں صرف اسلام کے حوالہ سے ہوتا تھا، اس کے علاوہ پہچان کاکوئی اور ذریعہ گوارانہیں کیاجاتا تھا،ترک،عرب شراکس،البان اور کرد وغیرہ کی تفریق سے عثمانی ناآشناتھے،دولت عثمانیہ کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ اپنے اندر بسنے والے لوگوں کوصرف ایک ہی ملت اور ایک ہی دین میں منحصریقین کرتے تھے، وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھےاور بس ، ان کے نزدیک روئے زمین کے تمام مسلمان بھائی تھے خواہ ان کے درمیان نسب اور زمانے کے حوالہ سے کتنی ہی دوری حائل کیوں نہ ہو۔(1)
عثمانی سلطنت میں مذہبی حالات کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ سلطنت میں نظام حکومت کے بنیادی طور پر دو اہم ادارے تھے،ایک ادارۂ حکومت تھا ،جس کے تحت سلطنت کے تمام عام امور انجام پاتے تھے، اور دوسرا اہم ادارہ ادارۂ اسلامیہ تھا جو خالص مذہبی امور کاادارہ تھا ،جس کے تحت سلطنت کے تمام دینی ومذہبی امور انجام پاتے تھے،ذیل میں ہم ادارۂ کے دائرۂ کار اور مختلف سرگرمیوں کامختصر جائزہ لینے کی کوشش کریں گے:
ادارۂ اسلامیہ:جومسلمان ادارۂ حکومت میں شامل نہیں تھے اور اعلی مذہبی تعلیم میں امتیازی حیثیت کے مالک تھے ان میں سے منتخب افراد اس ادارہ کے ارکان تھے ، یہ ادارہ بھی سلطان ہی کے ماتحتی میں کام کرتا تھا،ادارۂ حکومت اور ادارۂ اسلامیہ میں بنیادی فرق یہ تھا کہ ادارۂ حکومت کے ارکان عیسائی ہوتے تھے جبکہ ادارۂ اسلامیہ میں رکنیت کے لئے مسلمان ہونا اولین شرط تھی،سلطنت کے اس اہم شعبہ میں رکنیت صرف اسی شخص کو حاصل ہوتی تھی جو مخصوص تعلیمی مراحل سے گزرکرسلطنت کے سربرآوردہ علماء وفضلاء اور مذکورہ ادارہ کے معززارکان سے منظوری حاصل کرلیتا تھا ،اس ادارہ کے خاص طبقات میں مدرسین،مفتیان کرام اور قاضیوں کی جماعت شامل تھی،انہیں  طبقات کے ہاتھوں میں سلطنت کے علوم ،مذہب اور قانون کا نظام تھا۔
تعلیمی نظام: یوں تو عام طور پر تعلیم کا ذوق تمام سلاطین عثمانیہ کوشروع ہی سے تھا،لیکن محمد فاتح نے اس روایت میں مزید چارچاندلگادیا اور ایک بے مثال کارنامہ انجام دیا کہ اس نے ’’سلسلۂ علماء‘‘ کوقائم کرکے سلطنت کے مفتیوں اور قاضیوں کی تعلیم وترقی اور ان کی پیشہ وارانہ تربیت کاباضابطہ سرکاری سطح پرانتظام کردیا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت کے گوشے گوشے میں ابتدائی تعلیم کے لئے  مکاتب اور اعلی تعلیم کے مدارس  اور جامعات قائم ہوگئے ، ان کے تمام تراخراجات حکومت پورا کرتی تھی اور  وقف کے محکمہ میں جو آمدنی ہوتی تھی حکومت اسی میں سے اس مد میں خرچ کرتی تھی  ،یہ بات عثمانی سلطنت کی خوبیوں میں اہم اضافہ کرتی ہے کہ مکاتب یعنی ابتدائی اسکولوں میں تعلیم تمام شہریوں کے لئے  مفت تھی،اور اکثر طلبہ کے قیام وطعام کاانتظام بھی وقف ہی کی آمدنی سے ہوتا تھا،اور جہاں تک اعلی تعلیم کے مدارس کاتعلق ہے تو ان  میں طلبہ کوجزو ی طور پر مالی امدادبھی دی جاتی تھی،جوشخص بھی ادارۂ اسلامیہ میں باضابطہ سرکاری حیثیت سے کسی عہدہ کاامیدوار ہوتا تو اسےکسی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونا لازمی تھا، نصاب کی تکمیل  کے بعد انھیں دانشمند کی سند مل جاتی تھی،ایسے طلبہ کو جومکاتب یامدارس میں تدریس کی خدمت یامساجد کی امامت وغیرہ  پر قناعت کرلیتے تو اس کے لئے یہ سند کافی سمجھی جاتی  تھی،لیکن جوفضلاء مفتی یاقاضی بننے کاحوصلہ رکھتے تھے انھیں قانون کاایک اعلی نصاب پورا کرنا پڑتا تھا،مفتی اعظم خود ان کاامتحان لیتا تھا،اور اگر وہ کامیاب ہوتے توانھیں ملازم کی سند مل جاتی تھی،اسی جماعت سے اونچے درجہ کے مدرسین کا بھی انتخاب کیاجاتا تھا۔(2)
ادارۂ اسلامیہ کے مختلف ارکان اور عہدے:
عہدۂ افتاء:ادارہ  ٔ اسلامیہ کاایک اہم عہدہ عہدہ افتاء تھا،اور اس عہدہ پرمقرر مفتیان کی بڑی قدروقیمت  اور ادارہ میں ان کابڑا اعلی مقام تھا،ہربڑے شہر کے قاضی کے ساتھ ایک مفتی مقرر ہوتا تھا،اس کے علاوہ بیلر بے اور سنجق بے کے ساتھ بھی مفتی ہوا کرتے تھے،وہ مدت العمر کے لئے مقرر کئے جاتے تھے،انھیں خود معاملات میں دخل دینےکا حق حاصل نہ تھا،بلکہ جب کبھی کوئی قاضی ، بے یاعام آدمی ان سے استفتاء کرتا تو ان کافرض تھا کہ مذہب حنفی کے مطابق فتوی دیں،عام طور پرتومفتی کادرجہ قاضی کے بعد تھا،مگرقسطنطنیہ میں ایسا نہ تھا، چونکہ یہاں سلطان اور افسران حکومت کواکثر نہایت اہم معاملات میں  بار بارفتوی لینا پڑتا تھا،اسی وجہ سے قسطنطنیہ کے مفتی کادرجہ جومفتی اعظم کہاجاتا تھا ، قاضیوں سے بھی بڑھ گیا تھا،محمد ثانی نے اسے شیخ الاسلام کالقب بھی عطا کیا، مفتی اعظم اپنی جماعت سے نہیں منتخب ہوتا تھا،بلکہ سلطان اسے عموما قاضیوں میں سے مقرر کرتا تھا،اسے سلطنت کے تمام دوسرے مفتیوں کو مقرر کرنے اور ترقی دینے کاحق حاصل تھا۔
            اور سلیمان کے دور میں تو اسے اتنابلند مقام حاصل ہوگیاکہ اس  نےمفتی اعظم کو علماءکا صدر مقررکردیا،اور اس حیثیت سے اس کا درجہ حکومت کے تمام عہدیداروں سے اونچا ہوگیا،سوائے اس کے کہ دیوان میں اس کی جگہ صدر اعظم کے بعد تھی، اپنے منصب کی اہمیت کے لحاظ سے وہ قریب قریب سلطان کا ہمسر ہوگیا،کیونکہ وہی قانون  شریعت کا شارح اور وکیل تھا،اور شریعت سلطان سے  بلند ترچیزتھی، بایزید ثانی کامعمول تھا کہ مفتی اعظم کے استقبال کے لئے کھڑا ہوجاتا تھا،اور اسے اپنے سے اونچی جگی بیٹھنے کودیتا تھا، یہ صورتحال اس بات کااندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ عثمانی سلطنت اور اس کے فرمانرواؤں کے نزدیک اصحاب علم وفضل اور دین ومذہب سے وابستہ افراد کی کیسی قدرومنزلت تھی۔
          یہاں پر اس کی شہادت کے لئے سلطان سلیم اور مفتی جمالی کاایک مشہورواقعہ ذکرکردینامناسب  ہے، سلیم جب مصر کی مہم سے واپس آیا تو اس نے چاہا کہ سلطنت میں اسلامی رنگ پیدا کرنے کے لئے سلطنت کے  تمام عیسائی باشندوں کو مسلمان بنالیاجائے ،خواہ اس میں جبر سے ہی کام لینا پڑے، مگر اتنا اہم کام شرعی فتوے کے بغیر ممکن نہ تھا،چنانچہ سلطان سلیم نے اس وقت کے  شیخ الاسلام جمالی آفندی سے اپنے حق میں فتوی حاصل کرنا چاہا،لیکن شیخ الاسلام  نے اس بناء پر فتوی دینے سے انکار کردیاکہ سلطان محمد فاتح نے عیسائی رعایا کو مذہبی آزادی عطا کی تھی، اور اس معاہدہ کی پابندی قانون شریعت کے لحاظ سے ضروری تھی، انھوں نے ینی چری کے تین ضعیف العمر فوجیوں کو بھی جن کی عمر سوسوسال سے زیادہ تھی ،بطور گواہ اس معاہدہ کے ثبوت میں پیش کئے،یہ تینوں محمد فاتح کے جھنڈے کے نیچے لڑچکے تھے، مجبورا سلیم کویہ خیال ترک کردینا پڑا،ترکی کی مشہور ادیبہ اور قلم کارخالدہ خانم اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’یہ واقعہ کئی پہلوؤں سے اہمیت رکھتا ہے، ایک تو یہ کہ سلیم کاسا شخص جس نے خدا جانے کتنے وزیروں کو قتل کرادیا،شیخ الاسلام کے آگے جو قانون اور شریعت کانمائندہ ہے سرجھکادیتا ہے،اس کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت تک سلطنت عثمانی کانظام اور اس کے اصول بڑے سے بڑے سلطان کی شخصیت سے زیادہ قوی تھے،اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جمالی آفندی اور تینوں بوڑھے سپاہیوں میں عثمانی قومیت کااحساس اس حد تک موجود تھا کہ گو وہ چاہتے ہوں کہ پورا ملک مسلمان ہوجائے ،مگر انھوں نے اپنی سلطنت کےاصولوں کی حفاظت فرض سمجھی۔
عہدۂ قضاء:عثمانی سلطنت کے مذہبی حالات کے مطالعہ کے دوران اگر ہم اس پہلو کو دیکھیں تو صورتحال بہت واضح ہوجاتی ہے کہ تقریبا سلطنت کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں قاضی مقررتھے،ساتھ ہی ساتھ ان کاحلقۂ اختیار گردونواح کے علاقوں کوبھی محیط ہوتا تھا،ججوں کے پاس پانچ خاص طبقے اور مراتب تھے:
اول نمبرپر بڑے درجہ کے ملا،دوسرے نمبر پرچھوٹے درجہ کے ملا،تیسرے نمبر پرمفتش،چوتھے نمبر پرقاضی اورپانچویں نمبر پر نائب،جج کے لئے عام نام قاضی تھا، مگراحتراما لوگ اسے ملا کے لقب سے پکارتے تھے اور یہ لقب اس زمانہ میں احترام اور اعزاز کی علامت تصور کیاجاتا تھا، دوسری تقسیم جغرافیائی بنیاد پرتھی، یعنی یورپ اور ایشیا کے قاضی عسکر جو قاضی عسکر رومیلیا اور قاضی عسکر اناطولیہ کہے جاتے تھے، ہرقاضی عسکر کے ساتھ ایک بڑی جماعت ماتحت عہدہ داروں کی ہوتی تھی،سب سے اونچی عدالتیں قاضی عسکر ،صدراعظم اور دیوان کی تھیں،علاوہ ان مقدمات کے جودیوان میں ان کے سامنے پیش ہوتے تھے ،یاجن کی سماعت دیوان کے ختم ہوجانے پر وہ قصر شاہی کے باب پرکرتے ،قاضی عسکر دوسرے اوقات میں بھی اپنے گھروں پرعدالت کیاکرتے تھے، ان کی اصلی حیثیت فوجی ججوں کی تھی، مگر بعد میں ان کے اختیارات وسیع کردئے گئے، یہاں تک کہ وہ اپنے حلقہ کے تمام ججوں کے افسر اعلی بن گئے، دیوان  میں ان کادرجہ وزراء کے بعد تھا،لیکن دیوان کے ختم ہونے پر انھیں سب سے پہلے سلطان کی خدمت میں باریابی کاحق حاصل تھا، سلیمان اعظم کے عہد تک انھیں جماعت علماء پر وہ تمام اختیارات بھی حاصل تھے جو سلیمان نے مفتی کو تفویض کئے تھے۔(3)
نظام عدالت:عدالت کامحکمہ بھی ادارۂ اسلامیہ ہی کے ماتحت کام کرتا تھا،قاضیوں کاحلقۂ اختیارادارۂ حکومت سے زیادہ وسیع تھا،مثلا کریمیااور شمالی افریقہ کی ریاستیں اگرچہ انتظامی حیثیت سے مرکزی حکومت کے تابع نہ تھیں ،بلکہ محض وابستہ حکومتیں تھیں، مگریہ بھی عثمانی نظام عدالت کے ماتحت تھیں،اس کی صحیح تطبیق یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ریاستیں اگرچہ اس لائق تھیں کہ حکومت کانظم ونسق اور دیگر انتظامی وسیاسی امور کی انجام دہی کی صلاحیت رکھتی تھیں البتہ جہاں تک نظام عدالت کاتعلق ہے تو یاتو ان کے پاس کوئی باضابطہ اس کانظام نہیں تھا یا پھر انتظامی اور افرادی وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ عثمانی سلطنت کے نظام عدالت سے رجوع ہونے پر مجبور تھے ، قاضیوں کی عدالت میں دیوانی اور فوجداری ہرقسم کے مقدمات فیصل ہوتے تھے،لیکن سلطنت کے بعض اعلی  طبقات ایسے تھے جن کے معاملات ان کے اختیار سماعت سے باہر تھے، مثلاسلطان،قلی،سادات،اور غیرملکی باشندوں کے معاملات جنھوں نے سلطنت عثمانیہ میں اپنی نوآبادیاں قائم کرلی تھی،خود ان کی عدالتوں میں پیش ہوتے تھے،عیسائی رعایا کے مقدمات بھی جن میں فریقین عیسائی ہوتے انہیں کی کلیسائی عدالتوں کے سپرد تھے، ادارۂ اسلامیہ کے جج یعنی قاضی ان تمام مقدمات کی سماعت کرتے تھے جو قانون شریعت سے متعلق ہوتے ، اور جن میں دونوں فریق مسلمان یاایک فریق مسلمان اور دوسرا عیسائی ہوتا ۔
صدر اعظم کی عدالت:سلطان کے نمائندے کی حیثیت سے صدر اعظم ادارۂ اسلامیہ کابھی حقیقی صدر تھا، اور اس کی عدالت دیوانی کے تمام مقدمات کے لئے سب سے بڑی عدالت مرافعہ تھی، لیکن وہ صرف عدالت عالیہ ہی نہ تھی ، بلکہ سلطنت کی دوسری عدالتوں کی طرح عدالت ابتدائی بھی تھی، جہاں امیروغریب کے چھوٹے بڑے مقدمات کثیرتعداد میں فیصل ہوتے تھے، عدالت کادروازہ ہرشخص کے لئے کھلارہتا تھا، یاتو صدر اعظم خود فیصلے صادر کرتا یافرصت نہ ہونے کی صورت میں مقدمات کو کسی قاضی عسکر یادوسرے جج کے سپرد کردیتا، کہ فیصلہ جلدکردیا جائے، پروفیسرلی مائر لکھتے ہیں کہ کم سے کم ایک حیثیت سے عثمانی عدالتیں بہت قابل تعریف تھیں،فریقین مقدمہ کو فیصلہ کے انتظار کی زحمت بہت کم برداشت کرنی پڑتی تھی، مقدمات فورااور صاف وسادہ الفاظ میں فیصل کئے جاتے تھے،عدالتوں میں مذہب حنفی ہر عمل درآمد تھا، عثمانی سلطنت کا بھی یہی مسلک تھا اور اس کے زیرحکومت ملکوں میں محکمہ عدل و قضا میں حنفی مسلک پر ہی عمل ہوتا تھا۔(4)
عثمانی حدودسلطنت میں دیگر اقوام اورملتیں:ادارۂ اسلامیہ کے علاوہ سلطنت میں مختلف ملتوں کابھی جداگانہ نظام تھا، یہ ملتیں کلیسائی فرائض کے علاوہ پیدائش،اموات،نکاح اور وصیت ناموں کااندراج کراتیں،اپنے مذہب والوں کے شخصی قانون کے معاملات خود اپنی عدالتوں میں فیصل کرتیں،اور اگرفریقین مقدمہ اسی ملت کے ہوتے تو ان کے دیوانی مقدمات کافیصلہ بھی ان ہی عدالتوں میں ہوتا،اس کے علاوہ یہ ملتیں اپنے حلقہ کے لوگوں سے ٹیکس بھی وصول کرتیں تھیں، یہ تمام فرائض جو حقیقۃ فرمانروائی کی خصوصیات میں داخل ہیں سلطنت عثمانیہ نے صراحت کے ساتھ ملتوں کوتقسیم کردئے تھے، اور ان کی انجام دہی میں خوداپنی فوجوں سے ملتوں کی مدد کرتی تھی، ان میں سب سے اہم ملت روم تھی، جس کے حلقہ میں وہ تمام عیسائی رعایا شامل تھی، جومشرقی یایونانی کلیسا کی پیروتھی، خواہ وہ سلطنت کے کسی حصہ میں آباد ہو،اور اس کی مادری زبان کچھ بھی ہو، اس ملت کاقائد اعظم بطریق قسطنطنیہ تھا، جس کو سلطنت عثمانیہ کے عروج کے زمانہ میں اس سے زیادہ اقتدار حاصل تھا جتنا وہ سلطنت بازنطینی کے ایک عہدہ دار کی حیثیت سے رکھتا تھا، ملت روم کے علاوہ چند ملتیں اور بھی تھیں مثلا ملت ارمنی جوقسطنطنیہ کے گریگوری بطریق کے ماتحت تھی،ملت یہود جس کاافسر ربی اعظم تھا،اور رومن کیتھولک عیسائیوں کافرقہ جویورپ کے ایک نمائندہ کے ماتحت تھا۔
          سلطنت میں ایسے بہت سے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ آباد تھے،جوسلطان کی رعایا نہ تھے،بلکہ مغربی طاقتوں مثلا وینس،فرانس،ہالینڈ اور انگلستان کی رعایا تھے، یہ تجارت کی غرض سے آئے تھےاور یہیں مقیم ہوگئے تھے، انھیں بھی حکومت عثمانیہ کی طرف سے ان کی سفیروں اور قنصلوں کے ماتحت اسی قسم کے اختیارات دیدئے گئے تھے، جس قسم کے ملتوں کوحاصل تھے، اور یہ غیر ملکی باشندے بھی عیسائی رعایا کی طرح اپنے معاملات کاانتظام خود ہی کرتے تھے، عثمانی ترکوں نے تقریبا کل تجارت عیسائیوں کے ہاتھ میں چھوڑ رکھی تھی۔(5)
          ترک اسلام میں داخل ہونے کے بعد سے اسلام کے سچے فدائی ہوگئے  تھےاور شعائر اسلام کاہمیشہ احترام رکھا،یہ ان کے بے ریا اور مخلصانہ اسلام کاہی اثر تھا کہ ایک طرف اپنی آبائی شجاعت کے جوہر دکھاتے ،دوسری طرف اپنے اخلاق اور بلندسیرت اور رواداری سے اپنی زیراثر قوموں کوگرودہ بنالیتے،چنانچہ سربیا،بلغاریہ،رومانیہ ،یونان اور البانیہ کے بے شمار فراد بلاجبراکراہ عیسائیت کی خرافات سے بے زار ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
ینی چری فوج میں وہ نصرانی نوجوان لئے جاتے تھے جومسلمان ہوجاتے تھے، ان کی تعدا د لاکھوں تک پہنچ گئی تھی،لطف یہ ہے کہ ان نوجوانوں کی اسلامی طور طریق سے تعلیم وتربیت کی جاتی کہ ان کے اخلاق اعلی ہوتے اور ان میں مجاہدانہ سرگرمی پیدا ہوجاتی،نماز روزے کے بڑے پابند اور اوراورادوظائف کے عادی ،قرآن مجید بڑی خوش الحانی سے پڑھتے،نیک چلن ایسے ہوجاتے کہ پاکیزگی ان کے چہروں سے عیاں ہوتی،ان کی اعلی سیرت کے چرچے دوردور تک تھے، بلقان کے عیسائی رؤسااپنے بیٹوں کوخوشی سے لار خود ینی چری فوج میں بھرتی کراتے تھے۔
عثمانیوں کی  دین داری اور تصوف :
ترک بالعموم مجاہد اور سرفروش ہونے کے ساتھ دینی عقائد کے پکے،عبادت کے پابند اور خانگی زندگی ،روزمرہ کے معاملات اور اخلاق میں خالص مسلمان اور باہمی اخوت رکھنے والے غیرمتعصب ،نیک اوصاف سے متصف تھے،ان خوبیوں کی وجہ سے ان کی سیرت بلند تھی،سلاطین عثمانیہ اور ریاعا حنفی مذہب کے پابند تھے،اسی وجہ سے اختلافی جھگڑے بہت کم پیداہوئے،شیخ الاسلام کی پوری اطاعت کرتے،جو وہ حکم دیتا اس کو دل سے مانتے۔
ترکوں کوتصوف سے بھی خاص لگاؤ تھا،اور پیری مریدی کاسلسلہ بھی رائج تھا،خانقاہیں ،تکیے ان کے مرکز تھے، البتہ نام نہاد صوفیوں کی وجہ سے فتنوں کاظہور ہوتا رہتا جس کااثر ترکوں کی باہمی اخوت اور ان کی سیاست ملکی پرپڑتا تھا،جمہوریہ نے تمام زوایا اور تکیے بندکرادئے،علماءسوء بھی اپنے وقار کی خاطر بعض ایسی حرکتیں کرنے لگے تھے جس کااثر نقصان رساں تھا، یہ حکومت کے آلۂ کار بن کر حریت نوازقوم کوغلط راستہ پر لگاناچاہتے تھے، اس کے علاوہ ان علماء میں قدامت پسندی زیادہ تھی،وسعت نظر کم تھا،اس وجہ سے ہی مذہب کے نام سے مفید دنیاوی علوم وفنون کے پڑھنے سے روکتے تھے، ملک کی فلاح کے لئے جدید اصلاحات پیش کی جاتیں تو ان کی مخالفت کرتے۔
نوجوان ترکوں نے ان کے اقتدار پرایسی سیاسی ضرب کاری لگائی کہ یہ حضرات لاچار ہوکر رہ گئے،پھر ان کاکوئی پرسان حال نہ رہا،البتہ علماء حق کی ہرزمانہ میں توقیر ومنزلت رہی،تمام سلاطین عثمانیہ ان کے سامنے جھکتے رہے،اور ان کی قدرومنزلت شایان شان رتے  رہے، ان علماء احناف کاہی اثر تھاکہ سلطان سلیم اول مذہب حنفی کاسب سے بڑا علمبردار تھا ،جس کی یہ خواہش تھی کہ اس کے قلمرومیں بجزحنفیت کے کوئی دوسرا مذہب رہنے نہ پائے،اور اس کو اس سلسلہ میں بڑ ی کامیابی ہوئی،اور اس کے اخلاف بھی سرگرم رہے، البتہ کمال پاشا کے عہد میں اسلام سے ہی اگلا سا شغف نہ رہا تو حنفیت کی پرسش کیا ہوتی،مگرترک حنفی ہی کہلاتے ہیں۔(6)
سلطنت کے مذہبی شعبہ جات میں بڑی تبدیلی:     
پھر انیسویں صدی کی ان اصلاحات سے جو ’’تنظیمات‘‘ کے نام سے مشہور ہیں،سلطنت عثمانیہ کی تاریخ میں ایک نیادور شروع ہوا، وہ نظام حکومت جوقدیم سلاطین نے قائم کیاتھا بالکل بدل دیا گیا،اور اسکی جگہ مغربی طرز کا جدید نظام قائم کیاگیا،حکومت کے مختلف شعبوں کے لئے وزارتیں قائم ہوئیں،اور ہروزیر اپنے شعبہ کاذمہ دار قراردیاگیا،حکومت کے تمام عہدے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے یکساں طور پرکھول دئے گئے،بڑے بڑے عہدوں یہاں تک کہ وزارتوں اور سفارتوں پربھی عیسائیوں کاتقررہونے لگا،عدالتی نظام میں بھی تبدیلی ہوئی،پہلے صرف شرعی عدالتیں تھیں،جن میں قانون شریعت کے مطابق تمام مقدمات کے فیصلے ہوتے تھے،یہ شیخ الاسلام کے ماتحت تھیں،اور ان میں صرف ایک قاضی یاجج ہوتاتھا،’’تنظیمات‘‘ کے بعد مغربی طرز کی عدالتیں قائم کی گئیں،جووزیرعدل کے زیرنگرانی تھیں،ان عدالتوں میں مختلف مذہبی فرقوں کے کئی جج ہوتے تھے،قدیم شرعی عدالتیں بھی قائم رکھی گئیں،مگر اب ان میں وہی مقدمات پیش ہوتے جن کاتعلق وراثت ،نکاح وطلاق یامسلمانوں کے دوسرے شخصی معاملات سے ہوتا۔(7)
دینی اصولوں  اور عدل وانصاف سے پہلوتہی کاانجام:
عثمانی سلطنت کاقیام اگرچہ 1299ء میں عمل میں آیا،لیکن اس کی اصل ترقیوں کاسفر 1453ء میں سلطان محمددوم کی طرف سے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد شروع ہوتا ہے،قسطنطنیہ کی فتح کے بعد خلافت عثمانیہ کی سرحدیں ایشیا کی حدود سے نکل کر یورپ تک وسیع ہو گئیں،مرورزمانہ  کے ساتھ  باقی علاقے بھی یکے بعد دیگرےخلافت عثمانیہ کی عملداری میں آگئے، سلطان سلیم کے دور میں 1517ء میں مصر کی فتح کے بعد خلافت کی سرحدیں افریقہ تک پھیل گئیں، سلطان سلیم نے زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی قوانین کے نفاذ کااعلان کیا۔
عثمانی سلطنت کم وبیش پونے چھ سوسال قائم رہی، عثمانی دور حکومت میں مذہب اورمذہبی احکام وقوانین کے لئے حددرجہ احترام پایا جاتا تھا،اور ان کی خلاف ورزی اور بے احترامی کوقابل سزاجرم تصور کیاجاتا تھا، عثمانی سلاطین اور باشندے سختی سے شریعت اسلامی کے پابند تھے، عثمانی خلفاء کی طاقت اور فتوحات کاندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ عثمانی فوج نے 1683ء میں یورپ کے شہر ویانا کاکئی روز محاصرہ کئے رکھا،اگرچہ موسمی حالات کی وجہ سے انھیں واپس لوٹنا پڑا،کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے ہی عثمانی سلطنت کازوال شروع ہوا، جس کی تکمیل 1923ء میں عثمانی خلافت کے خاتمہ پرہوئی، جوعلاقے عثمانی ترکوں نے ساڑھے تین سوسال کے عرصہ میں فتح کئے تھے وہ ایک ایک کرکے اگلے دوسوسالوں میں ان کے دسترس  سے نکل گئے، بعض مؤرخ یہ کہتے ہیں کہ ویانا کے محاصرے میں ترکوں کی شکست کے بعد ان کے زوال کاعمل شروع ہوا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عثمانی سلطنت کازوال اس وقت شروع ہوا جب انصاف کی جگہ بے انصافی نے لے لی،جب تک عثمانی سلطنت میں انصاف کابول بالارہا اور وہ اسلامی       اصولوں پرقائم رہی ،اس کی طاقت اور عملداری کے علاقہ جات میں اضافہ ہوتا رہا،لیکن جب سلطنت میں نسبتا کم درجے یاکم علمی استعداد کے افراد شیخ الاسلام مقرر ہونے لگے اور انہوں نے سلطان کی مرضی کے تابع فیصلے صادر کرنے شروع کئے ،تو اسی وقت سے عثمانی سلطنت کازوال شروع ہوگیا، معاشرے میں بے انصافی ،لاقانونیت اور اقرباپروری نے ڈیرے ڈال دیئے۔ (8)
عثمانی حکومت کی مذہبی رواداری:
تاریخی حقائق کی روشنی میں اگر ہم عثمانی دور حکومت کاتجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عثمانی خلافت بہت وسیع الظرف تھی، اورایسا صرف مسلمانوں ہی کے حق میں نہیں تھا بلکہ  مظلوم یہودیوں یا عیسائیوں کوکہیں سکون ملتا تھا  تو وہ سلطنت عثمانیہ ہی کی سر زمین تھی،سلطنت کی پوری تاریخ میں کوئی ایک حاکم بھی ایسا نہیں گزرا جس نے قبیلہ یا خاندانی مفاد کو شریعت پر ترجیح دی ہو،تمام سلاطین نسلی اور قومی تعصب سے دور اپنے آپ کو دین اور شریعت کا محافظ سمجھتے تھے،چھ سو سالہ طویل ترین تاریخ کی مالک سلطنت عثمانیہ میں ہر مذہب، نسل، زبان اور ثقافت رکھنے والے گروہ موجود تھے اور انھیں ہرقسم کی مذہبی آزادی حاصل تھی، اگرچہ عثمانی ترک نژاد تھے، مگر ان کی سلطنت کے سائے میں مختلف رنگ ونسل اور ادیان ومذاہب کے لوگ آباد تھے،جیسے عربی، کردی، یونانی، بلغاری، بوسنائی اور سربی نسلی گروپوں کے ساتھ ساتھ مسلمان، عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی زندگی بسر کرتے رہے تھے، چھ سو سال تک قائم سلطنتِ عثمانیہ میں کبھی بھی خانہ جنگی نہیں ہوئی تھی اور یوروپی سلطنتو ں کی طرح کبھی بھی دینی اور
مذہبی جھڑپیں منظرعام پرنہیں آئی تھیں۔
عثمانیوں نے دیگر مذاہب اور ثقافتوں کے ساتھ ہمیشہ رواداری کا مظاہرہ کیا تھا، دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں انہوں نے اہلِ کتاب یعنی عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ مذہبی رواداری کامعاملہ کرتے  ہوئے انہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا تھا ، یہی وجہ ہے کہ1492ءمیں اسپین سے ملک بدر کئے جانے والے یہودیوں نے سلطنتِ عثمانیہ میں پناہ لیتے ہوئے پوری زندگی امن و امان کے ساتھ گزاری تھی، یہودیوں، عیسائیوں اور آرمینیوں کو سلطنتِ عثمانیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا تھااور اس طرح وہ اپنی خدمت کے ساتھ ساتھ سلطنتِ عثمانیہ کے فروغ میں بھی مدد گار ثابت ہوئے تھے۔(9)
اختتامیہ:
          عثمانی سلطنت نےگرچہ ترقیوں کے جن مراحل کو طے کیا اور عظمتوں کی جن بلندیوں کوسرکیا وہاں تک پہنچ کر اچھی اچھی حکومتوں کے پایہ ثبات میں تزلزل آہی جاتا ہے، اور وہاں انصاف کی جگہ بے انصافی،قانون کی جگہ لاقانونیت،سماجی نابرابری ،ظلم وجور،رعایا کی حق تلفی اور مذہبی احکام سے دوری عام طور پروجود پذیر ہوہی جاتی ہے، لیکن ہم اس سلطنت کودیکھتے ہیں کہ وہ اتنی عظیم ہونے کے باوجود رعایا کے حق میں مہربان ،عدل وانصاف کی محافظ اور مذہب پسند رہی ،یہ الگ بات ہے کہ اخیر میں چل کر زوال اس کو بھی آیا اور یہ خصوصیات اتنی مضبوطی سے ان میں باقی نہ رہ سکیں ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خلافت کے زوال کے آخری دن تک مذہب پسندی اس حکومت کاشعار رہی، اور حدود سلطنت میں شریعت اور دین کی پاسداری ان کا امتیاز رہی، انہوں نے اپنے   پورے عہد حکومت میں نہ صرف یہ کہ دین ومذہب سے اپنی فکری اور ذہنی ہم آہنگی کااظہار کیا بلکہ دینی احکام کے نفاذ اور اور اس کے تحفظ کے لئے باضابطہ طور پر ایک محکمہ ہی قائم کردیا، اوروہ تھا ادارۂ اسلامیہ ،سچ پوچھیں تو یہ صرف ایک حکومتی محکمہ نہ تھا بلکہ حکومت کادوسرا ایسا مضبوط بازو تھا جس کو بعض حیثیتوں سے ادارۂ حکومت پر بھی فوقیت اور برتری حاصل تھی، اس  پورے ساڑھے چھ سوسالہ طویل عہد کا ہم سرسری جائزہ لے لیں تو اندازہ ہوگا کہ اس کے کسی  دورمیں بھی مذہب سے دوری اور مذہبی احکام کی عمومی اور سرکاری سطح پر خلاف ورزی کی مثالیں نہیں قائم ہوئیں، نیز انہوں نے مذہب کو اتنی اہمیت اور قدرومنزلت عطا کردی کہ دینی اور مذہبی شخصیات کو سلطنت میں خصوصی درجہ اور مرتبہ حاصل ہوگیا، اور پھر ایک لحاظ سے تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کی باگ ڈور تقریبا انھیں مذہبی شخصیات کے ہاتھوں میں تھی، چونکہ حکومت کے جن اہم محکموں کی ذمہ داری انھیں دی گئی تھی وہ کسی بھی حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،  اور اس طرح عثمانیوں نے انسانی تاریخ میں پھر سے یہ مثال قائم کردی کی سیاست اور مذہب میں کوئی ٹکراؤ نہیں بلکہ مذہب تو سیاست کے لئے عین معاون ومددگار اور حکومت کے عروج کی بنیادی وجہ ہے، اور مذہبی اصولوں سے بیزاری زوال کی پہلی گھنٹی اور حکومت کے خاتمہ کابنیادی سبب ہے۔

حوالہ جات
(1)  الصلابی ، ڈاکٹر علی محمدمحمد ۔سلطنت عثمانیہ (اردوترجمہ:محمدظفراقبال کلیار):207(ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور2008)
(2) ڈاکٹرمحمدعزیر۔دولت عثمانیہ:2/380(دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ)(1998)
(3)حوالہ ٔ سابق:2/379-380(دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ)
(4) حوالہ ٔ سابق:2/382(دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ)
(5) حوالہ ٔ سابق:2/383-384(دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ)
(6) میرٹھی،زین العابدین سجاد -شہابی،انتظام اللہ ۔تاریخ ملت:223-224( ادارۂ اسلامیات،لاہور)(1991)
(7) ڈاکٹرمحمدعزیر۔دولت عثمانیہ:2/386(دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ)
(8) اوغلی،اکمل الدین احسان،الدولۃ العثمانيۃ - تاريخ وحضارة:2/153 (مركزالأبحاث للتاريخ والفنون،استانبول)(1999)
(9) سیدصباح الدین عبدالرحمن۔اسلام میں مذہبی رواداری: 192-200(دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ)(2009)

کتابیات
(1)  الصلابی ، ڈاکٹر علی محمدمحمد ۔سلطنت عثمانیہ (اردوترجمہ:محمدظفراقبال کلیار)، ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور(2008)
(2) ڈاکٹرمحمدعزیر۔دولت عثمانیہ، دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ (1998)
(3) میرٹھی،زین العابدین سجاد -شہابی،انتظام اللہ ۔تاریخ ملت،  ادارۂ اسلامیات،لاہور (1991)
(4) اوغلی،اکمل الدین احسان،الدولة العثمانية-تاريخ وحضارة، مركزالأبحاث للتاريخ والفنون،استانبول (1999)
(5) سیدصباح الدین عبدالرحمن۔اسلام میں مذہبی رواداری، دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ (2009)

Comments

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ماشاء اللہ شیخ خالد صاحب۔ اللہ پاک خوب خوب ترقیات سے نوازے اور تحریر میں تاثیر پیدا فرما کر دلوں میں اتار دے، آمین۔
    امید کرتے ہیں کہ آپ کے قلم سے ملکی و ملی مسائل اور اخلاقیات و معاشرت کے موضوع پر بھی ضرور مفید تحریریں جلوہ افروز ہوں گی۔ جزاکم اللہ تعالیٰ والسلام

    ReplyDelete
  2. جزاک اللہ خیر، آپ کی حوصلہ افزائی بڑی خود اعتمادی کا باعث ہوئی، آپ کی توجہ رہی تو ان شاء اللہ ملکی وملی مسائل پر تحریریں آپ لوگوں کی نظر کروں گا،۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ شیخ صاحب آپ نے ماشاءاللہ بہت ہی کمال کی تحریر لکھی ہے اللہ تعالی آپ کے علم و عمل میں مزید برکتیں عطا فرمائے۔سر آپ مجھے اپنا واٹس ایپ نمبر تو عنایت فرما دیں میں نے آپ سے ضروری رابطہ کرنا ہے ۔

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

الوداعی تقریب، الوداعیہ،

دورُ القرآن الكريم في بقاء اللغة العربية وتطويرها