بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
(جنید جمشید کی وفات حسرت آیات پر نالۂ غم)

                                                            محمد خالد ندوی
                                                     ایم ،اے (اسلامک اسٹڈیز
                                           مولاناآزادنیشنل اردو یونیورسٹی،حیدرآباد،انڈیا
        جنید جمشید کی پیدائش 3ستمبر1964 ءکو شہر کراچی (پاکستان)میں ہوئی،آپ کے والد پاکستان ایرفورس میں گروپ کیپٹن کے اعلی سرکاری عہدہ پر فائز تھے، ہائی اسکول کی تعلیم کے بعد جنید پاکستان ایرفورس سے منسلک ہوکر ایک پائلٹ بنناچاہتے تھے، لیکن نظر کی کمزوری کی باعث اس کے لئے انھیں نااہل قرار دیاگیا ، اور فضاؤں کی بلندیوں میں پرواز کا ان کا خواب ادھورا رہ گیا،اس کے بعد وہ لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی میں داخل ہوگئے، اور وہاں سے میکینکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی،چند برسوں کے بعد انہوں نے بیچلر آف سائنس کی ڈگری بھی حاصل کرلی، اس کے بعداپنے والد کے اثر ورسوخ کی وجہ سے انھیں پاکستان ایرفورس میں سیولین کانٹرکٹر کی نوکری مل گئی، تعلیم کے زمانہ سے ہی وہ موسیقی اور گانے کے بے حد شوقین تھے، چونکہ ان کی آواز میں نغمگی اور پختگی تھی جس کے باعث وہ زمانہ ٔ طالب علمی سے ہی گلوکار کی حیثیت سے مشہور ہوچکے تھے، تاہم اس وقت ان کی شہرت محدود تھی۔
1983ء میں جنید جمشید تعلیم کے دوران ہی پشاور یونیورسٹی اور اسلام آباد یونیورسٹی میں باضابطہ موسیقی اور گانے کے پروگرام کرنے لگے تھے، اور بتدریج ان کی شہرت یونیورسٹی کے حدود سے نکل کر عام لوگوں اور بڑے فنکاروں تک پہنچنے لگی تھی، پھر چند برسوں کے دوران وہ پاکستان کے کئی بڑے فنکاروں اور میوزک ڈائرکٹرز کے رابطہ میں آگئے ، مغربی موسیقی کوپاکستانی سروں میں ڈھال کر نئے انداز میں پیش کرنے کے باعث راتوں رات وہ ایک مقبول ترین گلوکار ،موسیقار اور ہزاروں نوجوان دلوں کی دھڑ کن بن گئے، اس کے بعد تیزی کے ساتھ بین الاقوامی سطح پران کا نام بڑے فنکاروں میں لیا جانے لگا ، ان ہی دنوں آپ کے چند مشہور البم منظر عام پر آئے جس نے انھیں شہرت اور مقبولیت کے ساتویں آسمان پر پہنچادیا، بطور خاص ’’دل دل پاکستان‘‘ نے پاکستانیوں میں وہ مقبولیت حاصل کی کہ پاکستانی نوجوان اس کو قومی گیت کی طرح گنگناتے ہیں، جنید جمشید کو دنیا کے بڑے فنکاروں کے ساتھ گانے کا موقع ملا، انھیں بہت کم عمری میں ہی وہ سب کچھ حاصل ہوگیا جو اس دنیا میں ایک نوجوان کا خواب ہوتا ہے، دولت کی ریل پیل ، مہنگی لگژری گاڑیاں، عیش وعشرت کے وافر سامان، عوام میں بے انتہا مقبولیت اور وہ سب کچھ جو اس دنیا وی زندگی میں کامیابی اورعزت کی علامت سمجھا جاتا ہے، ترقی کے اس پائیدان پر پہنچ کر اچانک 1999ءمیں وہ اس موسیقی کی دنیا سے روپوش ہوگئے پھر2004ء میں دوبارہ منظر عام پر آئے ،لیکن یہ جنید کوئی دوسرا جنید تھا، یہ جنید موسیقی اور فلم کے جام جمشید کو توڑ کر جنید وشبلی کی راہ پر چل پڑا تھا۔
        یہ جنید پچھلے جنید سے یکسر مختلف تھا، اس کے خیالات ،ترجیحات، حلیہ، بات چیت کا انداز ،فکر ونظر کی دنیا سب کچھ غیر معمولی طور پربدل چکی تھی، اب اس کی مصروفیات کے میدان دوسرے تھے، اس کی دنیا میں ایک ایسا حیرت انگیز انقلاب آچکا تھا کہ اس کے جاننے والے محو حیرت تھے، کیا ہوااس نوجوان کو؟ کہیں یہ دیوانگی تو نہیں؟ بھلا کامیابیوں اور اس چمک دمک کو کون ایسے لات مارتا ہے؟ پتہ نہیں کیا کیاکہا گیا،کہا گیا کہ موسیقی کی دنیا میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے اس نے یہ راستہ اختیار کیا، عوام میں اپنی گرتی ساکھ اور فینز کی ناراضگی سے پیچھا چھڑانے کے لئے اس نے یہ حرکت کی، لیکن بقول خود ان کے انہوں نے ایسا اس لئے کیا کہ دنیا میں انسان اپنی آرزوؤں کی انتہا پاکر بھی اگر یہ محسوس کرے کہ چین و سکون اور قلبی اطمینان کا احساس مفقود ہے تو پھریقینا انسان اپنے کام اور مقصد زندگی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوجاتاہے،ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا،لیکن بالآخروہ چین وسکون اور قلبی اطمینان کا سراغ پانے میں کامیاب ہوگئے ، اب وہ دین کے داعی اوراسلام کے سچے شیدائی بلکہ فدائی بن چکے تھے، مشہور داعی اسلام مولاناطارق جمیل صاحب کو اللہ نے ان کی ہدایت کا ذریعہ بنایا، اور پھر جنید مولانا طارق جمیل صاحب کے سفر وحضر کے ساتھی اور دست راس بن گئے ، جنید جمشید کی زندگی نے اس انقلابی تبدیلی کے بعد دعوت وتبلیغ کی راہ میں جو محنتیں کیں اور اس کے لئے جو قربانیاں برداشت کیں وہ تو سب کے سامنے ہیں ہی اور بلاشبہ قابل رشک اور لائق تقلید بھی ہیں، لیکن اس کے پہلو بہ پہلو وہ ایک اچھے انسان بھی تھے، اخلاق کی بلندی اور وسعت ظرفی میں بے مثال تھے،  مذہبی دنیا میں آنے کے بعد انہوں نے روایتی طرز سے ہٹ کر بڑے پیمانہ پر صحیح معنوں میں دین اور انسانیت کے لئے کافی کام کئے، وہ نوجوان طبقہ جو ان کی سابقہ زندگی سے متاثر رہا تھا کیا بات تھی کہ مذہب اور دعوت وتبلیغ سے وابستگی کے بعد بھی وہ ان سے اسی طرح محبت کرتا تھاجیسے پہلے کرتا تھا، ان کا نام اسی طرح عزت سے لیا جاتا تھا، مقبولیت پہلے جیسی بلکہ اس سے بڑھ کر، یہ کرشمہ تھا ان کے حسن اخلاق کا، ان کی مسکراہٹ اور کشادہ دلی کا،دین کے ساتھ ساتھ سماج اور قوم کی فلاح وبہبود کے لئے ان کی جانفشانیوں کا، اس سے بڑھ کر جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ یہ کرشمہ تھا ان کی نیک نیتی کا ، ان کی طہارت قلبی کا اور ان کے نیک اعمال کا، قرآن مجید کے اعلان کے مطابق صحیح معنوں میں ایمان اور اعمال صالحہ پر قائم ہونے والوں کے تئیں اللہ اپنے بندوں کے دلوں میں محبت جاگزیں کردیتے ہیں، یہ اس کی واضح علامت تھی،ان کی زندگی نہ جانے کتنے نوجوانوں کی دین سے قربت اور وابستگی کا ذریعہ بنی۔
         اب جبکہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، طیارہ حادثہ میں ان کی موت حدیث کے بیان کے مطابق بلاشبہ شہادت کی موت ہے، اورمزید یہ کہ وہ دعوت الہی کے مشن پر بھی تھے، اس حادثہ جانکاہ کی خبر سن کر پہلے کافی دیر تک تو دل کو یقین نہیں آیا، دل یہ بہلاوا دیتا رہا کہ یقینا یہ خبر سوشل میڈیا کی افواہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی، لیکن چند گھنٹوں بعد جب مولانا طارق جمیل صاحب کے تعزیتی بیان سے اس کی تصدیق ہوگئی تو ان کے جاننے والوں میں غم کی لہر دوڑ گئی، ایسا لگا کہ جیسے خاندان کا کوئی فرد رخصت ہوگیا ہو، رہ رہ کے ان کے گائے ہوئے حمدیہ اور نعتیہ کلام یاد آنے لگے، ان کی پرسوز وپرکیف آواز کانوں میں گونج رہی تھی اور آنکھیں اشکبار اور دل بے قرار تھا،ایک سکتہ سا طاری تھا، لیکن جانے والے کو کون روک سکتا ہے، تاہم حادثاتی موت کا غم زیادہ تکلیف دہ اور رنج والم کا باعث بنتا ہے      ؎               
یہ ہجرتیں ہیں زمین وزماں سے آگے کی
جو جاچکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا
گذشتہ دنوں ام المؤمنین حضرت عائشہ  سے متعلق نادانستہ طور پر ان کی زبان سے چند نامناسب اور توہین آمیز جملے نکل گئے تھے، اہل علم کے توجہ دلانے پر نہ صرف یہ کہ انہوں نے بلاکسی تاخیر کے اپنے جملوں سے رجوع کیا، بلکہ اپنی اس غلطی کو کم علمی پر محمول کرتے ہوئے سخت ندامت اورشرمندگی کا اظہار کیا، میڈیا کے سامنے آکر سب سے معذرت کی، لیکن چند ناعاقبت اندیش لوگوں نے ان کے ساتھ نہایت نازیبا اور انسانیت سوزحرکت کی، انھیں برابھلا کہا گیا گالیاں دی گئیں ،کھلے عام لعن طعن کیا گیا،اور اس پر بھی ان لوگوں کو قرار نہیں آیا تو انھیں زدوکوب بھی کیا اور جان سے مارنے کی دھمکی تک دے ڈالی، اتنا سب ہونے کے باوجود بھی جنید کا جو رد عمل تھا وہ یقینا اس زمانہ میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے، وہ چاہتے تو یقینا ان لوگوں سے انتقام لے سکتے تھے لیکن انہوں نے نہ صرف ان سب کو صدق دل سے معاف کردیا بلکہ ایک ایسا جملہ کہا جو ہم سب کواپنے طرزعمل کے تعلق سے غور وفکر کی دعوت دیتا ہے، کہا کہ جنہوں نے مجھ پر حملہ کیا انہیں نبی کریم ﷺ کا امتی سمجھ کر معاف کرتا ہوں، یہی وہ بلند اخلاقی اور عالی ظرفی تھی جس نے انھیں عام وخاص میں محبوبیت عطاکردی تھی،اسی کے ساتھ اس سے امت مسلمہ کے افراد میں عدم برداشت ، شدت پسندی اور عدم رواداری جیسے ناسور اور ناقابل علاج امراض کا بھی پتہ چلتا ہے۔
         یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ جنید جمشید نے ایک قابل رشک اور مثالی زندگی گزاری، دعوت وتبلیغ کے ساتھ اپنے آپ کو سماجی اور خیراتی کاموں کے لئے وقف کردیا،انہوں نے پاکستان میں(J)کے نام سے کپڑوں کا ایک برانڈ بھی شروع کیا تھا، جس سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ وہ راہ خدا اور غریبوں و سماج کے کمزور طبقات کی امداد میں صرف کرتے تھے، ان کے ان خیراتی اور امدادی کاموں کے پیش نظر2014ء میں انھیں دنیا کے پانچ سو موثر مسلم شخصیات میں شامل کیا گیا، وہ حج وعمرہ کی خدمات کے لئے مخصوص ایک ادارہ بھی چلاتے تھے، جس کے ذریعہ ممکنہ حد تک کم قیمتوں پر حج وعمرہ کی سہولت فراہم کی جاتی تھی، اور حرمین میں عازمین حج کے لئے عمدہ سہولیات کا نظم کیا جاتا تھا،دین سے رشتہ استوار کرنے کے بعد انہوں نے اپنی پرکشش آواز کو مثبت رخ دیتے ہوئے حمد وثنا، نعت نبی اور اسلامی نظموں کے لئے وقف کردیا تھا، حمدونعت کے ان کے جو البم منظر عام پر آئے اور شہرۂ آفاق ہوئے ان میں ’’جلوہ ٔجاناں‘‘2005،’’محبوب یزدانی‘‘2006،’’بدرالدجی‘‘،’’یادحرم‘‘2008،’’رحمةللعالمین‘‘2009،’’بدیع الزماں‘‘2009،’’ہادی الانام‘‘2010،’’رب زدنی علما‘‘2011اور ’’نورالہدیٰ‘‘2013 مقبول خاص وعام ہیں،صاحب نسبت بزرگ حضرت پیر ذوالفقار صاحب نقشبندی کی منظوم دعا’’مرا دل بدل دے‘‘ اور حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب کی دعائیہ مناجات ’’الہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں‘‘ جنید جمشید کی پرسوز آواز میں یقینا قلب وجگر میں گدازی اور رقت پیداکرتی ہیں۔
        حادثہ سے قبل جنید دعوتی سفر پر پاکستان کے صوبہ خیبر پختو نخوا کے شہر چترال میں تھے، ان کے ہمراہ ان کی دوسری اہلیہ بھی تھیں،7دسمبر کو پی آئی اے کے فلائٹ 661سے وہ اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے ، اور حادثاتی طور پر وہ جہاز حویلیاں نامی پہاڑی علاقہ میں 44مسافروں سمیت کریش کر گیا، سارے مسافروں کی اللہ مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، جنید جمشید کی پہلی اہلیہ باحیات ہیں، تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہیں، اللہ سب کو صبرجمیل عطا فرمائے،انھیں ہمت وحوصلہ کی طاقت دے، جنید جمشید کی وفات پر پاک وہند کی مقتدر علمی ودعوتی شخصیات نے اپنے گہرے رنج وغم اور افسوس کا اظہار کیا ،شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنی تعزیتی گفتگو میں اپنے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ مجھے ان کے ایک ساتھی سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے آخری بیان کے دوران گفتگو کرتے ہوئے اچانک رک گئے اور کہنے لگے کہ مجھے ایک دعا مانگنی ہے آپ سب اس پر آمین کہیں، انہوں نے دعا مانگی کہ اے اللہ ہم سب کو اپنے راستہ میں موت نصیب فرما اور سب نے آمین کہا‘‘، پھر حضرت مولانا تقی عثمانی زید مجدہم نے فرمایا کہ’’ اس دنیا وی زندگی میں حادثات پیش آ تے رہتے ہیں،اور واقعات وسانحات رونما ہوتے رہتے ہیں ،لیکن دین کے کام کا جو قافلہ ہے وہ رکتا نہیں ہے، وہ اپنی جگہ جاری رہتا ہے‘‘، یقینا جنید جمشید کی زندگی میں خاص طور پر قوم مسلم کے نوجوانوں کے لئے بہت سے سبق آموز پہلو ہیں، ان کے شب وروز کے گواہ ان کے احباب اور رفقاء کے جو تاثرات سامنے آرہے ہیں وہ ان کی شخصیت کی صحیح عکاسی کرتے ہیں، مشہور پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے تعزیتی بیان میں کہا کہ’’ جنید نے اپنی لگژری لائف سے کنارہ کش ہوکر اور دعوت وتبلیغ کے مشن سے منسلک ہوکر جو قربانی دی ہے اس کی مثال اس زمانہ میں کہیں نہیں ملتی، اور جنید دعوت کا کام صرف بیانات سے نہیں کرتے تھے ،ان کا عمل سراپا دعوت تھ‘‘۔
        ایک اچھا انسان ،قوم کا باصلاحیت فرد،خلق عظیم کاپیکر،داعی اسلام،بلبل باغ مدینہ ہم سے رخصت ہوگیا،اور ہم سب کو سوگوار کرگیا،تجھے ہم کبھی فراموش نہ کرسکیں گے،تیری شیریں اور پرسوزآواز ہمارے مضراب دل کو چھیڑتی رہے گی،اللہ رب العزت تمام طرح کی خطاؤں ولغزشوں سے درگزر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے۔           ؎
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

Comments

Popular posts from this blog

الوداعی تقریب، الوداعیہ،

سلطنت عثمانیہ کے مذہبی احوال؛ ایک تاریخی جائزہ