عصرحاضر کا حسین بھی رخصت ہوگیا

حسین احمد قاسمی عارف گیاوی (سابق امام جامع مسجد، ساکچی، جمشیدپور جھارکھنڈ) کا سانحۂ ارتحال 


🖋محمد شاہد الناصری الحنفی





آہ صد آہ  یہ کیسی خبر ملی کہ  دل پھر  فگار ہوگیا، فکر جامد ہوگئی اور قلم بھی چلنے سے رک گیا کہ وہ لکھے تو کیا لکھے اور کس کے لیے لکھے، یہ کیا لکھ دیا خالد نے پتہ نہیں یہ کیوں لکھ دیا کہ:   "ابی نہیں رہے"۔ بس کیا تھا کہ لمحوں نے قلب وفکر کو ایک دوسرے سے جدا جدا کردیا، اب قلم بھی  آمادہ نہیں کہ خالو جان کے لیے کچھ خامئہ حقیقت رقم کرسکے۔

 

آج غالبا پانچواں دن ہے اور وہ بھی پنجتن پاک کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔

 

1941 ء میں حافظ سید محمد مسلم کے یہاں جہان آباد میں خاکدان فانی کے ایک گھر میں ایک  حسین ترین بچے کا ظہور ہوا، ہاتف غیبی نے رہنمائی کی اور اس بچے کا نام اس خاکدان فانی کو لالہ زار اور جہاں آباد بنانے والے مکہ کے در یتیم کے نام اور ان کے اس نواسہ کے نام کو شامل کرکے (حسین احمد) سے موسوم کردیا گیا۔ اور سارا جہان ان کے اسی نام سے متعارِف ہوا۔ اورخصوصیات بھی وہی ودیعت کی گئی کہ: نرغے میں دشمنوں کے اکیلا حسین ہے۔ جو کار محمدی سینہ بسینہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ تک پہونچا، پھر نسلًا بعد نسلٍ ان کی نسلوں میں منتقل ہوا، اس کار امانت کو عملا وفا کرنا اللہ کی توفیق ونصرت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ 

چناں چہ ایک جہان کو اپنے علم ومعرفت اور دعوت وعزیمت سے آباد کرنے والے حسین احمد کو بھی در یتیمی کے شرف سے نوازا گیا اور اس در نایاب کو برادر محترم حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب مظاہری کے حوالہ کیا گیا۔

 

آپ نے برادر محترم کی سرپرستی میں تعلیم کا ایک معتد بہ حصہ حاصل کرنے کے بعد ہندوستان کے مشہور ومعروف علمی وروحانی مرکزی تربیت گاہ مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ گیا بہار میں داخلہ حاصل کیا اور وہاں انتہائی قلیل مدت میں بعمر دس سال حفظ قرآن مجید کی نعمت سے سرفراز ہوئے اور اس وقت کے مجاہد جلیل شیخ وقت اور اسلام کے جلیل القدر فرزند کبیر شیخ الاسلام والمسلمین مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ نے اپنے دست مبارک سے دستار حفظ آپ کے سرپر باندھا اوردعاؤں سے نوازا۔

 

کتنی پر مسرت اور معنی خیز وہ ساعت تھی کہ ایک حسین احمد جب اپنی زندگی کی آخری بہاروں کو امت مسلمہ پر نچھاور کرنے کے سلسلے کی تکمیل کرنا چاہ رہا ہے تو وہ اپنے نور علم اور خشیت الہی نیز اخلاق حسنہ اور دعوت عزیمت وجہد مسلسل کی امانت دستار کی شکل میں ایک دس سال کے حسین احمد کے سر میں باندھہ رہا ہے۔ 

 

یہ اسی مرد مومن کی نگاہ کا کمال ہے کہ بہت جلد اس کے انتقال کے بعد جب حسین احمد کو دار العلوم دیوبند سے اکتساب فیض کا موقع ملا تو اس کے ہم درس رفقاء میں اس مجاہد جلیل کے فرزند مولانا ارشد مدنی بھی شریک تھے اور دیگر ہم درس احباب بھی ایسے شامل تھے جو اپنے زمانہ کے فرد فرید ثابت ہوئے۔

 

1964ء میں دارالعلوم دیوبند سے علم و فضل اور تقوی میں درجئہ کمال پر فائز ہوکر وطن مالوف لوٹ آئے اور پھر اپنے مربی ومحسن  اور فخر الاولیاء حضرت مولانا قاری فخر الدین صاحب گیاوی قدس سرہ خلیفئہ اجل شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں مختلف جگہوں کے دینی حلقات میں اپنے جوہر علم کو تقسیم کرتے رہے تا آنکہ اس وقت کی مرکزی درسگاہِ علم وفن جامعہ قاسمیہ گیا کے منصب تدریس کے لیے آپ منتخب کیے گئے جہاں شیخ الاسلام حضرت مدنی کے صاحبزادہ اور آپ کے ہم درس مولانا ارشد مدنی صاحب بھی اپنے کشکول علم ومعرفت سے طلاب کو نواز رہے تھے اور وہاں حضرت شیخ الاسلام کے داماد مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری بھی پیکر عفت وحیا کا مجسم نمونہ بن کر طلاب میں صفت حیاء کی اشاعت میں مشغول تھے، اس قافلے میں اب ایک حسین احمد کا اضافہ ہوگیا۔

 - ہر عہد میں حسینی کردار کی کتنی کچھ ضرورت رہتی ہے اس سے اہل بصر خوب واقف ہوتے ہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی اس کردار سے خالی ہو تو وہ ضرور مداہنت کرے گا-

 

مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا اس عہد میں علم ومعرفت اور تصوف وطریقت کے حوالے سے بقعئہ نور بن چکا تھا اور رشد وہدایت وخشیت الہی کی مئے نایاب کی تقسیم عام ہوچکی تھی۔ حضرت مولانا قاری فخر الدین صاحب گیاوی مرحوم ایک قوی النسبت بزرگ اورقوی النسبت باپ کے بیٹے تو تھے ہی شیخ الاسلام حضرت مدنی مرحوم کی صحبت نے مزید ان کے اندر ایسی تواضع اور فنائیت پیدا کردی تھی جو اس زمانے میں بھی کمیاب تھی اور ہمارے عہد میں تو نایاب کے درجہ میں ہے۔

 

حضرت مولانا سید حسین احمد قاسمی مرحوم کو اوائل عمری کے ہی دور میں چونکہ حضرت قاری صاحب کی آتشیں صحبت مل چکی تھی اس لیے فکر ونظر اور قلب کے رذائل جل کر خس وخاشاک کی طرح اپنا نام نشان ختم کرچکا تھا اس لیے درجات علم کو بہ آسانی طے کرنے میں ان کو کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ اور پھر دیوبند سے فراغت کے بعد قریہ در قریہ دینی حلقات میں خدمت پر مامور کرنا دراصل نفس کشی کا ہی ایک مجاہدہ تھا۔

 اور ان مجاہدات کا تکملہ پھر مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا کے منصب تدریس پر فائز ہونا تھا۔ 

 

اللہ پاک نے حضرت مولانا حسین احمد صاحب کو وافر مقدار میں وجاہت، شجاعت، دیانت اور عدالت کے ساتھ ساتھ استقامت کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا۔ اور استقامت ہی وہ نعمت ہے کہ اس کے بعد ہی بندہ افضال وانعامات ربانی کا مورد ومرکز بن جاتا ہے، پھر اس کو {ألا تخافوا ولا تحزنوا وأبشِروا بالجنة} کا مژدہ سنا دیا جاتا ہے اور اس وقت اس مستقیم عارف کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کو ایک دوسرے عارف ربانی حضرت پرتابگڈھی رحمہ اللہ نے اس طرح فرمایا ہے:

 

وہ تصور میں آئے تھے میرے ابھی۔

کھل گئی کھل گئی میرے دل کی گلی۔

یوں تو لب پر نہیں ان کا ذکر جلی۔

لیکن ہر وقت ہے ان سے ربط خفی۔

 

حضرت مولانا حسین احمد المتخلص عارف گیاوی رحمہ اللہ کا یہی حال زندگی بھر رہا، شریعت وسنت پر تا زندگی عزیمت اختیار فرمائی۔ کلمہ حق کے اظہار میں رشتہ داریاں اور دوست احباب کی خاطر داریاں کبھی حائل نہیں ہوئیں، زندگی کے تمام شعبوں میں اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استحضار فرماتے، نششت وبرخواست اور چلنے پھرنے قیام وطعام اور نوم وبیداری میں بھی سنت رسول کو ملحوظ رکھتے۔




قرآن مجید سے حد درجہ عشق تھا درد وسوز کے ساتھ پوری توجہ اور انہماک سے تلاوت کرنے کا معمول تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو گویا فدا تھے، آپ کی ایک ایک اداؤں کا ذکر لطف ولذت اور قلب کی حلاوت کے ساتھ فرماتے، یہی وجہ ہے کہ عشق رسول میں جب فنا ہوئے تو بغیر نقطہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ایک زبردست شاہکار الہامی نعت لکھی جو اہل دل واہل علم اور صاحب فکر ونظر کے یہاں بہت مقبول ہوئی۔ 

 

جامع مسجد ساکجی جمشید پور کی امامت کا وقت ہو یا درون خانہ قیام الیل کا، خشیت الہی کا ان دو وقتوں میں بطور خاص غلبہ رہتا۔ اذان شروع ہوتے ہی یا بسا اوقات اذان کے بعد وہ مسجد کے لیے اہل خانہ یا دوستوں سے اس طرح جدا ہوتے جیسے کوئی اجنبی غیر متعارف ہو۔ مزاح با دوستاں اور مدارات با دشمنان وحاسداں میں اس عہد میں حضرت مولانا حسین احمد صاحب کی مثال کوئی اور پیش کرنے سے شاید قاصر ہوگا۔

 

قناعت مرحوم کی زندگی کا خاصہ تھا اور سخاوت عادت ثانیہ تھی۔ اپنے زمانے کے اہل علم وتصوف اور طلباء کا حد درجہ احترام واکرام فرماتے، ہر خورد وکلاں کے اچھے اعمال وافعال اور اقوال نیز ان کی اچھی عادت وخصلت پر بلا تکلف ان کی تحسین فرمانے اور حوصلہ افزائی کرنے کی عادت تھی، اگر اس وقت جیب میں کچھ موجود رہتا تو اس کو انعام دینے میں کوئی تامل نہ فرماتے، بلکہ بے دریغ اور بے جھجھک نوازتے۔ 

 

شریعت وسنت کی جس طرح محبت ان کے رگ رگ میں رچ بس گئی تھی اسی طرح حمیت اسلام ومسلمین کی محبت سے وہ سرشار تھے اور وہ وطن عزیز بشمول اقصائے عالم کے مسلمانوں کی دینی ودنیاوی ترقیات سے جہاں خوش ہوتے وہیں اگر ان کے حوالہ سے کوئی رنج وغم کی بات معلوم ہوتی تو پھر طبیعت بے قابو ہو جاتی اور شدت غم سے آب دیدہ ہوجاتے پھر ان کے لیے دعا ومناجات میں مشغول ہوجاتے۔

 

خاکسار کی شاید حضرت مولانا حسین احمد صاحب سے دو بار ملاقات ہوئی تھی، بار اول کی ملاقات ٹاٹا نگر جنکشن پر ہوئی، اسی ملاقات وزیارت پر ان سے ہونے والی چند منٹ کی گفتگو نے ان کی عقیدت ومحبت کو میرے لیے مقدر کردیا تھا۔ پھر یہ ان کا بڑاپن کہ مجھ جیسے گنوار دہقانی بے ڈھنگے انسان کی اصلاح کے لے حکیمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے اہل خانہ سے فرمایا کہ شاہد بابو میرے ہم مزاج ہیں۔ یہ سن کر کسی فریب خوردہ شاہیں کی طرح اس وقت تو میری بانچھیں بھی شاید پوری طرح کھل گئیں تھیں پھر ان کے دولت کدہ پر دو روزہ قیام کے دوران اہل خانہ اور عام ملاقاتیوں پر جو ان کے اعلی  اخلاق و مدارات نیز منکسر المزاجی اور تواضع اور شیریں بیانی کے مناظر دیکھے تو ہوش اڑ گئے کہ بڑے میاں نے چھوٹے میاں کو ایک ہی نظر میں تاڑ لیا اس لیے مزید احوال عجیبہ کا انکشاف نہ ہو ان کی قیام گاہ پر دوران قیام توبہ واستغفار کرتا رہا تا آنکہ جدائی کی گھڑی آپہونچی اور میں بنگال کے لیے رخصت ہوگیا۔  

 

اب جب کہ واقعی وہ رنج وآلام اور مکر وفریب کی اس پر خطر وادی اور نفاق وشقاق، کبر ونخوت، علو علم وفضل اور برتری کے دعوی اورجھوٹی نمائش اور جھوٹے تقوی کے اعلان اور دجل وتلبیس کی سفید عمامے والی دنیا سے نجات پاکر راحت وآرام اور عافیت وسکون کے دار النعیم میں {فادخلي في عبادي وادخلي جنتي} کے اعلی واولی مقام میں داخل ہوچکے ہیں تو  ان کا داغ مفارقت ہم جیسے دین وشریعت سے بے بہرہ اور غافل لوگوں کے لیے خسارہ عظیم سے کم نہیں کہ شفقت ومحبت سے لبریز جملوں میں بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ منور وپرنور چہرہ اور اپنے جمال جہاں آراء کی زیارت کراتا ہوا کون ایسی دوسری شخصیت ہے جو اپنا رعب جمائے اور کرخت لہجہ اختیار کیے بغیر حکیمانہ انداز سے ہماری نصح وخیرخواہی کرے گا۔ کون ہے جواب فون پر دلداری کرے گا۔ لفظوں میں پھول اور مرہم عطا کرے گا۔ 

آہ صد آہ کہ اب وہ نہ رہا جو ہر غیر کو اپنا سمجھتا تھا اور جو اپنے خون جگر سے نقش نا تمام کی تکمیل کرتا تھا۔ 

 

وہ تین خوش مزاج وخوش خصال، نیک طینت، شریف اور سنجیدہ، باوقار وباحیا عالم وفاضل، عابد وساجد اور مفتی کے عظیم ترین باپ تھے جن کے تصور اور اسمائے گرامی کے ورد سے ان کی آنکھیں حضرتِ یعقوب (علیہ السلام) کی طرح روشن ہوجاتی تھیں اور وہ ہیں: اعظم، زاہد اور خالد۔

اسی طرح وہ تین شریف زادی جو حلیمہ، متینہ، اور عفیفہ عابدہ زاہدہ ہیں ان کے بھی باپ تھے، جن کی تعلیم وتربیت اور پرورش کی وجہ سے وہ روز ازل میں ہی جنتی موسوم کردیے گئے ہوں گے۔ اسی طرح وہ ہزاروں گم کردہ راہوں کے روحانی باپ تھے جو مرحوم کی جد وجہد سے راہ یاب ہوگئے تھے۔ 

 

اوصاف ابھی حضرتِ حسین احمد کے باقی ہیں اور اتنے ہیں کہ:

سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے۔

مگر رہ رہ کر ان کی جدائ کی شدت کچھ اورلکھنے کی ہمت نہیں جٹاپا رہاہے کہ صد محاسن وصد فضائل کی حامل دلنواز شخصیت کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بصورت باب تحریر کیاجائے اس لئے    

 حضرت اقبال مرحوم کی دعا پر قلم اپنی راہ لے رہا ہے۔ 

 

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔

سبزه نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔

 


Comments

Popular posts from this blog

الوداعی تقریب، الوداعیہ،

سلطنت عثمانیہ کے مذہبی احوال؛ ایک تاریخی جائزہ

دورُ القرآن الكريم في بقاء اللغة العربية وتطويرها