ترانہء جمعیت علمائے ہند
Tarana (Anthem) of Jamiat Ulema e hind
نتیجۂ فکر: قاری فخرالدین گیاوی(۱۹۸۸)
(خلیفہ ومجاز حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی)
یہ لہراتا نظر آتا ہے حزب اللہ کا جھنڈا
یہی تھا فتح مکہ میں رسول اللہ کا جھنڈا
یہ جھنڈا نائبین احمد مختار کا جھنڈا
خدا شاھد کہ یہ تھا سیدالابرار کا جھنڈا
یہ محبوب خدا کے دین
پر انوار کا جھنڈا
جہاد فی سبیل اللہ کے اسرار کا جھنڈا
یہ لہراتا ہے جھنڈا دیکھیے مردان غازی کا
نشاں ہے جو کہ اصحاب نبی کی پاسبانی کا
نشاں جمعیت علماء کے دینی رہنماؤں کا
علم اسلام کے شیدائیوں کے پیشواؤں کا
یہ جھنڈا کشتئ ملت کے ماہر ناخداؤں کا
وہ نورانی فر راہ دین حق کے با وفاؤں کا
یہ جھنڈا یادگار فتح مکہ آج لہرا یا
ستارہ قوم کی قسمت کا یعنی اوج پر آیا
ہے اجلی دھاریوں سے اس میں کالی دھاریاں زیادہ
اشارہ ہے کہ صحت سے ہیں کچھ بیماریاں زیادہ
زما نے میں نیکو کاری سے ہیں بد کاریاں زیادہ
جہاں میں عزت قومی ہے کم اور خواریاں زیادہ
مگر ظلمات شب سے پھوٹتی ہے صبح صادق پھر
غم ایام قومی کو پلٹ دیتا ہے خالق پھر
یہ جھنڈا امت خیرالوریٰ کے مہر بانوں کا
یہ جھنڈا ملت بیضہ کے سچے پسبانوں کا
یہ جھنڈا ہے محمد مصطفیٰ کے رازدانوں کا
یہ جھنڈا ہے نبی الانبیاء کے کاروانوں کا
اسی جھنڈے کے سایے میں بنا ایوان حریت
اسی جھنڈے سے قائم ہے وطن میں شان حریت
اسی جھنڈے تلے ہم نے لڑی ہے جنگ آزادی
اسی جھنڈے کے نیچے آئ انگریزوں کی بربادی
وطن کی ہے اسی جھنڈے سے آزادی وآبادی
اسی کا فیض ہے اہل وطن کی آج دلشادی
یہ شیخ الہند محمودالحسن کو تھا بہت پیارا
یہی جھنڈا رہا شیخ العرب کی آنکھ کا تارا
یہ جھنڈا جو کہ تھا کل تک حسین احمد کے ہاتھوں میں
یہی جھنڈا رہا مرد خدا اسعد کے ہاتھوں میں
بفضل رب عالم آج ہے ارشد کے ہاتھوں میں
دعا ہے یہ رہے اب تا عمر ارشد کے ہاتھوں میں
یہ لہراتا نظر آتا ہے حزب اللہ کا جھنڈا
یہی تھا فتح مکہ میں رسول اللہ کا جھنڈا ۔
ماشاء اللّٰہ! 2005ء کی تحریر ہے یہ، تب تو آپ ابتدائی درجات میں رہے ہوں گے، ماشاء اللّٰہ
ReplyDelete